مسجد میں دوسری جماعت کا حکم
اگر مسجد میں نماز ہوگئی ہو تو کیا اس میں دوسری جماعت کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو دوسری جماعت کس جگہ کرنی چاہیے؟
اگر مسجد میں نماز ہوگئی ہو تو کیا اس میں دوسری جماعت کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو دوسری جماعت کس جگہ کرنی چاہیے؟
:کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک مسجدیں بند تھیں ۔اب حکومت کی طرف سے بعض شرائط کے ساتھ انہیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بعض علاقوں میں اب بھی نمازیوں کی تعداد کو محدود رکھنے کا حکم دیا جارہا ہے۔کیا اس صورت میں ایک نماز کے لیے کئی جماعتیں کی جاسکتی ہیں ؟
ام طورسے فرض نمازکے بعد اجتماعی دعامانگنے کا رواج ہے۔ کیا اس موقع پر مقتدی الگ سے اپنی دعامانگ سکتا ہے؟
ایک خاتون نے عورتوں کی ایک مجلس میں نماز پڑھنےکا طریقہ بتایا تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر جولوگ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے ہیں اور دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھتے ہیں وہ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتے ہیں ، اس لیے کہ ان کی نماز وتر مغرب کی نماز کے مشابہ ہوجاتی ہے۔
بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ ہم اب تک وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح پڑھتے آئے ہیں ۔ کیا اس طرح پڑھنا غلط ہے؟
لک میں آج کل کورونا وائرس کی خطرناکی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔اس بناپرپورے ملک میں زبردست احتیاطی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ ذرائعِ مواصلات موقوف کردیے گئے ہیں ،دفاتر،تعلیمی ادارے،دوکانیں اورمالس بندکردیے گئے ہیں ،بعض ریاستوں میں مکمل اور بعض ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ مذہبی اداروں اورعبادت گاہوں کو بھی بندکرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔اس صورت حال میں بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا مسجدوں میں باجماعت نمازیں محدود یا موقوف کردینا درست ہے؟کیا مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز اداکرنے کے بجائے گھروں میں ان کی ادائیگی جائز ہوگی؟
پانچ وقت کی نمازوں میں اذان اورجماعت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اورکیوں ؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیجیے۔
ظہر اورعصر کی نمازوں میں قرأت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاکی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟
کچھ لوگ نماز میں دوران قیام ہاتھ باندھتے ہی نہیں ہیں ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ایسا کرنے والے لوگ کون ہیں اوران کے دلائل کیا ہیں ؟
نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلما (احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے ۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں :
۱- احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں ۔ قدیم ترین مجموعۂ احادیث غالباً خود امام مالک ؒ کا مرتب کردہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’مؤطا ‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲- امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری ۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے ۔ انہوں نےمدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتےہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالکؒ کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے ؟
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔
ہماری مسجد کے امام کو فجر کی فرض نماز کی پہلی رکعت میں غلطی کے نتیجے میں نماز دہرانا پڑی ۔ ہمارے ایک ساتھی نے ، جس کی پہلی رکعت چھوٹ گئی تھی اور جس نے امام کے ساتھ صرف دوسری رکعت پائی تھی ، امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت ملا کر اپنی نماز مکمل کرلی ۔ دیگر مصلیوں نے نماز دہرائی، لیکن اس نے نہیں دہرائی ۔ اس کا استدلال تھا کہ امام صاحب کو پہلی رکعت کی قرأ ت کی خامیوں کی وجہ سے نماز دہرانی پڑی ، جب کہ میں پہلی رکعت میں موجود ہی نہیں تھا ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ہمارے ساتھی کو ایسی صورت میں نمازقضا کرنا پڑے گی یانہیں ؟