نمازِ عصر کے بعد فرض نماز کی قضا
کیا عصر کی نماز کے بعد کسی چھوٹی ہوئی فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے؟
کیا عصر کی نماز کے بعد کسی چھوٹی ہوئی فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے؟
میرے گاؤں میں ایک زمانہ سے صرف ایک مسجد تھی۔ چند ایام قبل گاؤں کے دوسرے سرے پر ایک دوسری مسجد تعمیر کی گئی ۔ اس میں پنج وقتہ نماز یں اور نماز جمعہ شروع ہوگئی ہے ۔ اکثر لوگ بے نمازی ہیں ۔ پنج وقتہ نمازیں چند ہی لوگ پڑھتے ہیں ۔ نئی مسجد میں جمعہ کا آغاز ہوا تو تقریباً بیس (۲۰) افراد اکٹھا ہوئے ۔ کم وبیش اتنی ہی تعداد ہر جمعہ میں رہتی ہے ، کبھی اس سے کم بھی ہوجاتی ہے ۔ اس پرایک صاحب نے اعتراض کیا کہ چالیس (۴۰) افراد سے کم ہوں تو جمعہ کی نماز پڑھنی درست نہیں ہے ۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں ۔ کیایہ بات صحیح ہے ؟ نمازِ جمعہ صحیح ہونے کے لیے نمازیوں کی کم از کم کتنی تعداد ہونی چاہیے ؟
اگر کوئی اپنے آبائی وطن جاتا ہے تو وہاں پر نماز قصر ہوگی یا نہیں ؟ جیسے عورت کا میکہ اور مرد کا آبائی وطن؟
میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نمازیں ادا کرتا ہوں ۔ اس مرکز میں آئے دن بڑے پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، جن میں شرکت کے لیے باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں ۔ یہ حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے لگتے ہیں ۔ مسجد میں آنے والوں کی خاصی تعداد مقامی لوگوں کی ہوتی ہے ، جنھیں مرکز میں مہمانوں کی آمد کا پتا نہیں ہوتا،ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے؟جمع بین الصلوٰتین کے تحت عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت ہورہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کراس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں :
(۱) جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر جمع بین الصلوٰتین کہاں تک درست ہے؟
(۲) جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ، ان کی نماز ہوگی یا نہیں ؟ کیوں کہ امام اورمقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔
(۳) اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے با جماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں ؟
کیا حضر میں بھی ظہر وعصر اورمغرب وعشا ء کوجمع کیا جاسکتا ہے ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ کچھ احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
بہ راہ کرم صحیح صورتِ حال سے مطلع فرمائیں ۔
رسو ل اللہ ﷺنے خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت دی تھی تو حضرت عمرؓ اسے ناپسند کیوں کرتے تھے؟ اور اپنی اہلیہ کو کیوں روکنے کی کوشش کرتے تھے؟
میں نماز کے لیے کبھی ٹوپی لگاتا ہوں اور کبھی نہیں لگاتا۔ اس لیے کہ میرے علم کے مطابق ٹوپی نماز کے شرائط میں داخل نہیں ہے، لیکن یہاں ہمارے امام صاحب کا کہنا ہے کہ لوگ بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہیں ۔ اب مجھے الجھن یہ ہے کہ اگر میں ٹوپی لگاتا ہوں تو دل میں خیال ہوتا ہے کہ میں امام صاحب کو یا دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے یہ عمل کر رہا ہوں اور جو عمل لوگوں کو یا کسی انسان کو خوش کرنے کے لیے کیا جائے اس سے شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اکثر مسلمان داڑھی کے بغیر نماز پڑھتے ہیں ۔ پاجامے ٹخنوں سے نیچے لٹک رہے ہوتے ہیں ، جو گندگی سے بھرے ہوتے ہیں ۔ کوئی اعتراض نہیں کرتا، جب کہ ان دونوں کے بارے میں صحیح حدیثوں میں وضاحت آئی ہے۔ لیکن ٹوپی کے بارے میں کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے۔ لیکن اس پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ کیا امام صاحب کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں کہ کس چیز کا دین میں کیا مقام ہے؟ برائے مہربانی رہ نمائی فرمائیں ۔
کوئی شخص کسی جگہ اکیلا ہے، جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے کوئی دوسرا شخص وہاں نہیں ہے تو کیا اس صورت میں وہ شخص فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں اونچی تیز آواز سے قرأت کرسکتا ہے؟
لوگ فجر کی نماز میں جماعت ہوتے ہوئے وہیں سنتیں پڑھتے رہتے ہیں ، جب کہ فرائض پر سنتوں کو ترجیح دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ بہ راہ کرم اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں ۔
میں اٹھاسی (۸۸) سال کا بوڑھا ہوں ۔ ویسے تو اچھا ہوں ، لیکن دونوں گھٹنوں میں درد رہتا ہے، جس سے زمین پر بیٹھ نہیں پاتا ہوں ۔ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہوں ۔ افاقے کی صورت میں کھڑے ہوکر پڑھ لیتا ہوں ۔ مرض کی تکلیف سے مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتا ہوں ۔ مغرب بعد سورۂ یٰسین، سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک پڑھنے کا معمول ہے۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا میں مغرب کی نماز کے فوراً بعد عشاء کی نماز پڑھ لیا کروں ، یا ان وظائف کے بعد پڑھا کروں ؟