کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا

یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں ۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں ۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنامحال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟

جرابوں پر مسح

موزوں اور جرابوں پر مسح کے بار ے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں ۔یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟براہِ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں ۔

حضرت عائشہ ؅ کا صاع پانی سے غسل کرنا

نبی ﷺ کی مقدس احادیث کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ کسی کٹر سے کٹر اہل حدیث سے کم نہیں ۔اسی لیے ہر وقت دُعا مانگتا رہتا ہوں کہ خدا مجھے منکرین حدیث کے فتنے سے بچاے۔ لیکن چند احادیث کے متعلق ہمیشہ میرے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور اس کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق استفسار کیا گیا تو انھوں نے برتن منگوا کر اور پردہ لٹکا کر اپنے بھائی اور ایک غیر شخص کی موجودگی میں غسل فرمایا۔({ FR 1827 })(بخاری،جلد اوّل صفحہ۳۹ ) ازراہ کرم اس حدیث کے متعلق میری پریشانی دور فرماکر مشکور فرمائیں ۔

کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے۔
حضرت حذیفہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ کھاد کے ایک ڈھیر کے قریب گئے اور میرے سامنے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔

رسول اللّٰہﷺ کے لعاب سے حصولِ برکت

صحیح البخاری باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ، حدیث۲۷۳۱میں صحابہ کی ارادت مندی اور عقیدت کاذکر کرتے ہوئے عُروہؓ ذکر کرتے ہیں : فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ({ FR 2177 }) نخامہ کھنکارکو بھی کہتے ہیں اور جو غلیظ مواد ناک سے نکلتا ہے اس کو بھی۔ ان میں سے جو بھی ہو، بہرحال قابل غور ہے۔ کیا حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کے نخامہ کی یہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جو عام طور پر ہوتی ہے؟یافرط عقیدت کی وجہ سے صحابہ کو اسے چہرے اور جسم پر مل لینے میں اجنبیت نہیں محسوس ہوتی تھی؟ حضورﷺ کی نفاست پسندی اس میں حائل کیوں نہ ہوئی؟

رسول اللّٰہ ﷺ کے وضو کے پانی سے برکت حاصل کرنا

صحیح البخاری، باب استعمال فضل وضوء الناس حدیث :۱۸۸ میں آتا ہے: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ لَهُمَا اِشْرِبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا({ FR 2178 }) پانی کے برتن میں ہاتھ دھونا،پھر اس میں کلی کرنا، اور ان سب کے بعد لوگوں سے کہنا کہ اسے پیو اور اس سے منہ دھوئو۔یہ سب کچھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی نفاست پسندی کے عام کلیہ کے مخالف معلوم ہوتا ہے ۔پھر صحابہ کا اس سلسلے میں بے خود ہوکر اس کو استعمال کرنا اور بھی عجیب معلوم ہوتا ہے ۔اس کی وضاحت مطلوب ہے۔

اہ رمضان المبارک کو تین عشروں  میں تقسیم کیاجاتا ہے۔پہلے عشرہ کو عشرۂ رحمت، دوسرے کو عشرۂ مغفرت اور تیسرے کو عشرۂ نجات کہاجاتا ہے۔ ہر عشرہ کے اعتبار سے الگ الگ دعائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک حدیث پرمبنی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ تقسیم درست ہے؟ وہ حدیث کس پایہ کی ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

کیا مقیم شخص موسم حج میں عمرہ نہیں کرسکتا؟

مقیم شخص کے لیے حج تمتع‘ کے عنوان سے مذکورہ بالا جواب پر اشکال کرتے ہوئے ایک صاحب نے لکھا ہے:
’’سورہ البقرۃکی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوں کو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ اجازت ان کے لیے نہیں ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب ہوتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے۔جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے : وَاتَّقُواللہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔ اگر یہ بات نہ ہوتو حج وعمرہ کے ذیل میں ’ شدیدالعقاب‘ پرآیت ختم ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخر رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔
اگر کوئی مقامی فرد ایام حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا۔
میقات سے باہر رہنے والا چاہے تو قِران کرے یا تمتع یا افراد حج ، لیکن میقات کےاندر رہنےوالا صرف حج افراد ہی کرسکتا ہے۔‘‘

طواف ِ زیارت ،احرام کے ساتھ یا اس کے بغیر؟

مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’خطبات‘ کے مضمون ’حج کے فائدے‘ میں مناسکِ حج کی تربیت بیان کی ہے۔انھوں نے لکھاہے
’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے ۔(وہاں  بڑے جمرہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ) پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے۔پھر وہاں سے کعبہ کارخ کیاجاتا ہے۔ طواف اور دورکعتوں سے فارغ ہوکر احرام کھل جاتاہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہوجاتاہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طورپر شروع ہوجاتی ہے۔‘‘(ص۲۵۱)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد احرام نہیں  کھولے گا، بلکہ قربانی کے بعد حرم جاکر طواف کرے گا اور دورکعت نماز ادا کرے گا، اس کے بعد احرام کھولے گا، جب کہ ہمیں  حج کے لیے جاتے وقت بتایا گیا تھا کہ قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ میں نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون ساعمل صحیح ہے؟قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ،یا طواف کرنے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام کھولنا؟