نماز ِ وتر کا وقت
ایک صاحب لکھتے ہیں :
’’ماہ نامہ زندگی نو ستمبر ۲۰۰۹ء کے ’فقہی استفسارات‘ کے کالم کے تحت نماز وتر کے سلسلے میں استفسار کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ ’’نماز وتر عشاء کی نماز کے ساتھ مشروع ہے۔‘‘ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نماز ِ وتر عشاء کی نماز سے متصل ادا نہیں فرمائی، بل کہ ہمیشہ شب کی آخری نماز کے طور پر ادا کی ہے۔ جب آپؐ کے عمل اور احادیث سے ثابت ہے کہ نماز وتر رات کی آخری نماز ہے تو یہ عشاء کی نماز کے ساتھ مشروع کیسے ہوئی؟ میرے خیال میں موجودہ چلن کو دھیان میں رکھتے ہوئے نماز وتر کو بغیر تحقیق کے عشاء کی نماز کے ساتھ مشروع قرار دے دیا گیا ہے۔ نماز وتر کے سلسلے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے ساتھ مشروع ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وتر کی نماز دراصل تہجد کی نماز ہے اور وہ بھی آخری۔ وہ روایات جن میں اس نماز کی فضیلت کے طور پر یہ بتایا گیا کہ جس کو رات کے آخرپہر تہجد کے لیے بیدار نہ ہونے کا اندیشہ ہو، وہ یہ نماز پڑھ کر سوئے، دراصل اس لیے ہے کہ جو شخص اس وقت بیدار نہ ہو پائے یا نہ ہونا چاہتا ہو، وہ تہجد کی نماز کا مختصر سا حصہ وتر کی شکل میں ادا کرلے، گویا تہجد کی نماز سے بالکلیہ کوئی شخص محروم نہ رہ جائے۔ ورنہ وتر کی نماز اصلاً تہجد کی نماز ہے۔‘‘