صحابہؓ کے معیارِ حق ہونے کی بحث
آپ کے نزدیک معیار حق ہونے کا مطلب کیا ہے اور اس مطلب کے مطابق صحابہ کرام معیارِ حق ہیں یا نہیں ؟
آپ کے نزدیک معیار حق ہونے کا مطلب کیا ہے اور اس مطلب کے مطابق صحابہ کرام معیارِ حق ہیں یا نہیں ؟
میں ایک مسئلے میں آپ کی راہ نمائی کا طالب ہوں ۔وہ یہ ہے کہ آپ نے محرم کے ایام میں اپنی ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ حق علیؓ کے ساتھ تھا۔اس کامطلب تو یہ نکلا کہ حضرت علیؓ کے مقابلے میں آنے والے لوگ باطل پر تھے۔آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ کی تین گروہوں کے ساتھ خوں ریز لڑائیاں ہوئیں ،لیکن انھوں نے حدود اﷲ سے تجاوز نہ کیا، اور مقابل گروہ کے افراد کو نہ تو کبھی قتل کیا اور نہ ان کے بیوی بچے،لونڈی غلام بناے۔آخر حضرت علیؓ نے کون سی لڑائی میں فتح پائی تھی کہ وہ یہ انداز اختیار کرتے؟
جب حضرت حسینؓ کا وقت آیا تو سب صحابہ ؓ نے انھیں کوفہ جانے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے کسی کی بات بھی نہ سنی۔ آپ ہی فرمائیں کہ ایک منظم حکومت کے مقابلے میں جب کہ سواے ہلاکت کے کچھ نظر نہ آتا ہو،مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہونا کوئی دانش مندانہ اقدام ہے؟ کیا اسلام یہی تعلیم دیتا ہے؟ایسے مواقع پر جب کہ بالکل انسان بے بس ہو کسی منظم حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتو اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔
ترجمان القرآن جولائی۱۹۷۶ء کے صفحہ۱۲ (مہاجرین حبشہ کی فہرست کے نمبر۴۷) پر عیاشؓ بن ربیعہ کے نام کے بعد قوسین میں انھیں ابوجہل کا بھائی ظاہر کیا گیا ہے۔ صفحہ ۱۵ پر بغلی عنوان ’’مکہ میں اس ہجرت کا رد عمل‘‘ کے تحت حضرت عیاشؓ کو ابوجہل کا چچازاد بھائی تحریر کیا گیا ہے اور صفحہ ۱۷ پر حضرت عباسؓ کے سگے بھائی عبداللّٰہ بن ابی ربیعہ اور صفحہ۲۲ پر حضرت عیاشؓ کو ابوجہل کے ماں جائے بھائی لکھا گیا ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرت عیاشؓ ابوجہل کے چچا زاد اور ماں شریک بھائی تھے۔
ترجمان القرآن اگست ۱۹۷۶ء کے صفحہ۱۹ پر حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺکے ساتھ ۳۹آدمی تھے اور میں نے شامل ہوکر ان کو۴۰کر دیا۔ آپ نے اس قول کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ ممکن ہے اس وقت حضرت عمرؓ کو اتنے ہی آدمیوں کا علم ہو کیونکہ بہت سے مسلمان اپنا ایمان چھپاے ہوئے بھی تھے۔ اس ضمن میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ابتدائی سہ سال خفیہ تحریک کے دوران میں ۳۳آدمی مسلمان ہوئے۔ بعدازاں علی الاعلان تبلیغ اسلام شروع ہوئی اور اِکا دُکا لوگ مسلمان ہوتے گئے تا آنکہ کفار کی مخالفت شدت اختیار کرگئی اور۵،۶ بعد بعثت میں ۱۰۳ صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف دو مرحلوں میں ہجرت کرنا پڑی جن میں سے چند ایک بعد ازاں تشریف لے آئے۔ اس ہجرت سے مکہ مکرمہ میں کہرام مچ گیا۔ مہاجرین میں حضرت عمرؓ کے قبیلہ بنی عدی کے افراد بھی شامل تھے اور اس ہجرت سے حضرت عمرؓ متاثر بھی ہوئے۔ چنانچہ یہ تو ممکن ہے کہ جن لوگوں نے قبول اسلام کا اعلان نہ کیا ہو ان کے بارے میں حضرت عمرؓ کو معلومات نہ ہوں ۔ لیکن یہ کیوں کر ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے باخبر آدمی کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کا علم نہ ہو جو ہجرت کرکے حبشہ میں مقیم تھے؟ کیا حضرت عمرؓ کے قول کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا کہ جب وہ قبول اسلام کے لیے دارارقم تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں صرف۳۹ آدمی تھے اور حضرت عمرؓ کے آنے سے۴۰ ہوگئے اور یہی حضرات دو صفوں میں مسجد حرام کی طرف نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہؓ تھے اور دوسری میں حضرت عمرؓ۔ مزیدبرآں اس وقت مکہ مکرمہ میں دس مسلمان عورتیں بھی تھیں اور دیگر صحابہ و صحابیاتؓ اس وقت حبشہ میں بطورِ مہاجرین مقیم تھے۔
آپ نے سورۂ التحریم کی آیت إِنْ تَتُوْبَآ إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہِ… ({ FR 1661 }) (التحریم:۴) کی تشریح کرتے ہوئے تفہیم القرآن میں حضرت عمر ؓ کی جو روایت بخاری اور مُسند احمد سے نقل کی ہے، اس میں حضرت عمرؓ کے الفاظ لا تُرَاجِعیِ({ FR 1604 }) کا مفہوم ’’رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر‘‘ (ترجمان القرآن، جلد ۷۲ عدد۴ صفحہ۲۲۳، آخری سطر) اگرچہ صحیح ہے، لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان الفاظ کو بدلنے پر غور فرمائیں کیونکہ اہلِ زَیغ نے آپ پر من جملہ بہت سے الزامات کے ایک یہ الزام بھی بڑے زور شور سے پھیلا رکھا ہے کہ مولانا مودودی نے ازواجِ مطہرات کو ’’زبان دراز‘‘ کہہ کر ان کی گستاخی اور بے ادبی کی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تفہیم القرآن میں ’’زبان درازی نہ کر‘‘ کے الفاظ کی جگہ ’’پلٹ کر جواب نہ دے‘‘ یا ’’دُو بدُو جواب نہ دے‘‘ کے الفاظ رکھ دیں تو مفہوم کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور اہل زیغ کے ہاتھ میں بھی پروپیگنڈے کے لیے شوشہ نہیں آئے گا۔‘‘
آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طوفانِ نوح عام نہیں تھا۔لیکن ظاہری قرائن اس بات کے خلاف ہیں ۔ اوّل کشتی کس لیے بنائی گئی تھی؟کیوں نہ حضرت نوح ؈ کو ہجرت کرنے کا حکم دیاگیا؟دوم کشتی میں حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا لینا بھی اس بات کا مؤید ہے کہ طوفان نہایت عام تھا۔حضرت نوح ؈ کی بددُعا میں بھی اس عمومیت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ( نوح:۲۶)
حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد۱، صفحہ۳۱۹ میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کا کیا جواب ہوگا؟
قرآن مجید نے حضرت آدم ؈ کا ذکر جس انداز سے کیا ہے،وہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔اس سلسلے میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے ناآشنا ہیں ۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سواے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلۂ ارتقا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟
اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ ۔ ( طٰہ:۹۴)
’’نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔‘‘
یہ حضرت ہارون ؈ کا مقولہ ہے، اس کا کیامطلب ہے؟حالاں کہ حضرت مسیح ؈ بنی اسرائیل ہی کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ میں تمھیں لڑانے آیا ہوں ۔