کافر کے عملِ صالح پر اجر کا معاملہ
گزارش ہے کہ اس بندئہ عاجز کے ایک مخلص دوست جو دینی خیال کے آدمی ہیں ، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کوئی نیک عمل کرے، مثلاً مظلوم کی حمایت، غریب کی امداد، مسافر کی خدمت، کسی بیمار کی تیمارداری، تو وہ اپنے رب کے ہاں ضرور اجر پائے گا۔ آخرت کی اجارہ داری مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ۔ اللّٰہ رب العٰلمین ہے، صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ۔ ان کا گمان ہے کہ ہر مذہب کا پیرو مثلاً عیسائی، ہندو، بدھ وغیرہ، اگر خالص نیت سے نیکی کرے، یعنی ریا کاری مقصود نہ ہو تو وہ آخرت میں جزا پائے گا۔ میں ان سے متفق نہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا حوالہ دیتا ہوں کہ ایمان لانا بھی قبولیت عمل کے واسطے شرط ہے۔ مثلاً سورئہ النحل:۹۷۔ سورئہ طٰہٰ:۱۱۲۔ سورئہ الانبیاء:۹۴۔ مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ میں نے ان سے عرض کیا تمام علما اس بات پر متفق ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا علما عموماً انتہا پسند ہیں ۔ پھر وہ آپ کے متعلق کہنے لگے کہ مولانا مودودی صاحب متوازن ذہن کے عالم ہیں اور ان کی سوچ انتہا پسندانہ نہیں ۔ آپ اس مسئلے کا فیصلہ ان سے پوچھ دیجیے۔ چنانچہ یہ عریضہ ارسال خدمت ہے۔ وضاحت کے لیے ایک اور بات لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ وہ یہ کہ اگر ایک فاسق مسلمان نیکی کرے تو وہ قبول اور وہی نیکی یا اس سے بہتر نیکی اگر ایک غیر مسلم کر ے تو وہ مسترد۔ اللّٰہ ایسا جانب دار نہیں ہوسکتا یہ اس کی شانِ بندہ پروری کے خلاف ہے۔