عورت اور منصبِ قضا
کیا عورت قاضی یا جج ہوسکتی ہے؟ کیا حضورﷺ کے زمانے میں عورت قاضی یا جج رہی ہے یا یہ مسئلہ اجتہادی ہے؟
کیا عورت قاضی یا جج ہوسکتی ہے؟ کیا حضورﷺ کے زمانے میں عورت قاضی یا جج رہی ہے یا یہ مسئلہ اجتہادی ہے؟
ایک محترمہ اپنے مکتوب میں لکھتی ہیں :
میں عورت کی سربراہی کی حمایت (Favour) نہیں کرتی، اس لیے کہ شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ امامت و قیادت کے فرائض ادا نہیں کرسکتی۔ جسمانی طور پر (Physically) بھی یہ اس کے لیے نہیں ہے۔
حدیث اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ عورت کی سربراہی ناپسندیدہ ہے، مگر کیا اسے ہر حالت میں حرام یا ناجائز کے دائرہ(Category) میں رکھنا درست ہوگا؟
بعض علماء کا خیال ہے کہ ناگزیر حالات (Emergency condition) میں عورت کی سربراہی گوارا کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے حالات میں عورت کو سربراہ بنانا جائز ہے یا حرام اور ناجائز؟ اگر جائز ہے تو Emergencyحالات کون سے ہوں گے اور کون ان کا تعین کرے گا؟
آپ نے اپنی کتاب ’عورت اسلامی معاشرہ میں ‘ لکھا ہے کہ اس معاملہ میں اجماع ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اس اجماع کی تفصیلات (Details) بتائیں تاکہ امت کے سامنے صحیح پوزیشن آسکے۔
خواتین تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر مردوں سے کافی پیچھے ہیں ۔ انھیں آگے بڑھانے کے لیے کوٹا سسٹم کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ اس کے تحت ہر شعبہ میں خواتین کے لیے تیس (۳۰) فیصد یا اس سے زیادہ سیٹیں محفوظ ہوں گی۔ جب مرد اور خواتین ایک سطح پر آجائیں گے تو یہ سسٹم ختم کر دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات خاندان اور سماج پر کیا پڑیں گے؟