ترویجِ فقہ اور اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش

آپ نے تنقیحات میں لکھا ہے کہ ’’وہ ابھی تک اصرار کررہے تھے کہ ترکی قوم میں وہی فقہی قوانین نافذ کیے جائیں جو شامی اور کنز الدقائق میں لکھے ہوئے ہیں ۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے کہ شامی وغیرہ کتب فقہ میں اسلامی قوانین نہیں لکھے ہوئے؟کیا وہ فقہاے اسلام کے خود ساختہ قوانین ہیں جوکہ قرآن وحدیث کے مخالف ہیں ؟ بہرکیف اس کے متعلق آپ کی راے کیا ہے؟ان کتابوں میں یقیناً بعض ایسے مسائل ہیں جو مرجوح ہیں ، مگر ان سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان میں سارے مسائل قوانین اسلام کے خلا ف ہیں ۔ کیا ان میں جزئیات کے علاوہ مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد وغیرہ کا ذکر بسیط نہیں ہے؟اگر ہے تو ان میں کیا کمی ہے۔
اُمید ہے کہ تکلیف فرما کر ہمیں اطمینا ن دلائیں گے۔

فرضی قیاس آرائی

پنچایتی نظام اگرکسی جماعت کے امیر کو’’صالح‘‘نمائندہ تجویز نہیں کرسکتا تو اس جماعت کے افراد کیوں کرصالح قرار دیے جاسکتے ہیں ؟

تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون

ایک بات عرصے سے میرے ذہن میں گشت کررہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ میں اﷲ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم ا ور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کردے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے،جن کے قلب ودماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے،اُمت کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے، تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں ،تعمیری انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے، اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یک جائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا گو ہیں ۔
جس بات کو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی اورالجھی ہوئی ہے اور مجھ جیسے کم صلاحیت انسان کے لیے یہ ہرگز زیبا نہیں کہ ایسے اہم معاملے پر قلم اٹھائے۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی مدد اور اس کی رحمت کے بھروسے پر ہم نے یہ مخاطبت شروع کی ہے۔ شاید کہ وہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کردے۔
آپ نے اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ یہ کام ہم نے اﷲ کے لیے اور اﷲ کے ہی بھروسے پر شروع کیا ہے،اگر مجھ سے غلطی ہورہی ہے تو وہ میری اصلاح کردے۔ نیز آپ نے اس طرح کے اختلاف پر بھی فراخ دلی کے ساتھ غور وخوض کرنے کا علی الاعلان اطمینان دلایا ہے جو حق پسندی اور نیک نیتی پر مبنی ہو،اور ہم اس بات پر پوری طرح مطمئن ہیں کہ آپ نے واقعتاً ایسے مواقع پر کسی طرح کی تنگ دلی کا اظہار نہیں فرمایا ہے۔
آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ میں نے دین کا ابتدائی شعور تبلیغی جماعت سے حاصل کیا۔اب تک میرا تعلق اس جماعت سے قائم ہے۔اﷲ اس کو قائم رکھے اور اس سے زیادہ کی توفیق عطا فرمائے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میرا گہرا ربط جماعت اسلامی سے بھی پیدا ہوچکا ہے اور اب میرا زیادہ وقت اسی جماعت کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ میں فخر نہیں کرتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اب ایک زندہ جماعت ہے اور دین دار طبقے کی نگاہ بھی اب اس طرف مرکوز ہو رہی ہے۔ لیکن جو بات کہ میرے نزدیک انتہائی افسوس ناک ہے،وہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی کشاکش ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اپنے تبلیغی احباب سے جو اس حلقے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، گفتگو کی اور بالکل بے تکلفانہ یہ اعتراض کیا کہ آپ غیر مسلموں کے قبول اسلام اور ہدایت کے لیے دعا کرسکتے ہیں لیکن آپ کے دل میں وسعت نہیں ہے تو صرف جماعت اسلامی کے لیے۔آپ ایک فاسق وفاجر مسلمان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لیے ہرطرح کی محنت کرسکتے ہیں اور مشقت اٹھا سکتے ہیں ۔ان کی ہر بداخلاقی اور ٹھوکر کو برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن جماعت اسلامی جو آپ کی نگاہ میں گمراہ ہے ،وہ قابل توجہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت آپ کے نزدیک ہے۔ ان سے ملنا، ان کی باتوں کو سننا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کو سمجھنا بھی آپ کے نزدیک گمراہی کو دعوت دینا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے احباب کی حالت بھی اس لحاظ سے ان سے کچھ بہترنہیں ہے۔ہم اپنے تجربے کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی لوگوں کو دیکھ کر ان میں ایک حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم نے ہر چند ان سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ تبلیغی جماعت دین ہی کی تبلیغ تو کرتی ہے، کوئی بددینی تو نہیں پھیلاتی،اگرصرف کلمہ اور نماز کی ہی حد تک مان لیا جائے تو کیا یہ دین کی تبلیغ نہیں ہے؟کیا یہ بنیادی چیز نہیں ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ علم وعمل کے کسی مقام پر ہو،زندہ نہیں رہ سکتا؟ کیا ان کی شب وروز کی محنتیں خالصتاً لوجہ اﷲ نہیں ہیں ۔ ہم نے مانا کہ ان کے دماغ میں وہ وسعت نہیں ہے، لیکن ایک کمزور اور نحیف شخص کی کمزور سی محنت جو دین کے لیے ہو، کیا یہ اﷲ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے؟میں تو کہتا ہوں کہ ایک سادہ لوح انسان جو اپنی تمام بے وقوفیوں اور کمزوریوں کے ساتھ اﷲ کی رضا کے لیے اس کے دین کی سربلندی کی کوشش کرے،وہ شاید اس اعتبار سے بڑھ جائے گی کہ اس میں آمیزش کا امکان نہیں ہے۔بخلاف اس کے ایک ذی علم اور باصلاحیت انسان کے اس توشۂ معاد میں آمیزش کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس کو اپنے علم وعمل وحکمت پر تکبر آسکتا ہے۔
بہرحال یہ بات تو اپنے اپنے لیے ہوئی۔جہاں تک دینی مفاد کا تعلق ہے، نہ معلوم میرا یہ خیال کس حد تک صحیح ہے کہ ایسے ہی لوگ اگران کے ذہن میں اسلامی نظام کی اہمیت پیدا ہوجائے تو میرے لیے ممد ہوسکتے ہیں ۔ ایسا مخلص گروہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی ہوس نہ کرے بلکہ جو کچھ سوچے سمجھے اور چاہے وہ صرف آخرت کے لیے، اس سے زیادہ مفید انسان بنے بناے اور کہاں مل سکتے ہیں ۔ہم اس پر اصرار تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے علم وفہم کی حد تک اس خیال کو بہت قریب پاتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا قیام ایسے ہی لوگوں پر تھا۔
میری اس مخاطبت کااصل مدعا یہ ہے کہ اگر ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کو بڑھ کر اپنا لینے کی کوشش کریں تو یہ کس حد تک ممکن العمل او رموجب خیر ہوگا؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ ایک جماعت دوسرے میں ضم ہوجائے۔نہیں بلکہ جو جس طور پر کام کررہا ہے،کرتا جائے۔اپنے اپنے حدود میں رہتے ہوئے ہم ان کے ہم درد ہوجائیں اور وہ ہمارے لیے دعا گو بن جائیں ۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان سے اختلاف کامٹ جانا ہی بہت بڑی چیز ہے۔

تبلیغی جماعت سے ایک دوستانہ شکایت

پچھلے دنوں سکھر میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑ اجلسہ منعقد ہوا تھا، جس میں ہندستان و پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر جناب مولانا محمدیوسف صاحب(صاحب زادہ و جاےنشین مولانا محمد الیاس صاحب مرحوم) خو د تشریف لائے تھے۔جماعتِ اسلامی سکھر نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر جلسہ گاہ کے حدود میں اپنا ایک بک اسٹال لگائے۔چنانچہ منتظمین سے مل کر انھوں نے دریافت کیا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کے ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ اس میں اعتراض کی کون سی وجہ ہوسکتی ہے،آپ شوق سے اپنا مکتبہ لگائیں ۔اس کے بعد ان سے اسٹال کے لیے جگہ بھی طے ہوگئی۔مگر دوسرے روز شام کو جب فضل مبین صاحب امیر جماعتِ اسلامی سکھر نے وہاں جاکر اسٹال لگوانے کا انتظام شروع کیا تو انھیں یکایک منع کردیا گیا۔وجہ پوچھی گئی تو ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ’’ہماری مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ آپ کو مکتبہ لگانے کی اجازت دیں گے اور نہ آپ سے کسی قسم کا دوسرا تعاون لیں گے۔اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ایک سیا سی جماعت ہیں ۔‘‘اس جواب اور اس طرز عمل پر جو تعجب ہوا،اس پر مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ وہاں دوسرے متعدد بک اسٹال موجود تھے اور اس پر ان حضرات کو کوئی اعتراض نہ تھا، مگر جماعتِ اسلامی کے متعلق ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی جلسہ گاہ سے ایک میل تک بھی اس کا مکتبہ نظر نہ آئے۔
اس پر۱۱ ؍اپریل۱۹۴۵ئ کو ڈاکٹر سلیم الدین صاحب امیر جماعتِ اسلامی حلقۂ بالائی سندھ، فضل مبین صاحب امیر جماعت شہر سکھر،اور مولوی قربان علی صاحب رکن جماعت، مولانا محمدیوسف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ ’’اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت مقصد میں متحد ہیں اورصرف طریق کار میں فرق ہے۔ لیکن یہ سلوک جو ہمارے ساتھ کیا گیا ہے،یہ اس باہمی اخلاص اور تعاون کو نقصان پہنچانے والا ہے جو دین کی خدمت کرنے والی ان دو جماعتوں کے درمیان اب تک رہا ہے اور ہمیشہ رہنا چاہیے،کیا آپ واقعی ہمیں ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں ؟‘‘اس پر حضرت جی( مولانا محمد یوسف صاحب اسی نام سے یاد کیے جاتے ہیں ) نے فرمایا:’’میں اس مکتبے وغیرہ کے سخت خلاف ہوں ، اور یہ لوگوں نے طریقہ بنالیا ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے حاصل کرنے کے لیے کتابیں لکھتے ہیں ۔ اسی علم نے خرابیاں پیدا کی ہیں ۔فساد کی جڑ یہی ہے۔ میں کتابیں لکھنے، اخبار چھاپنے اور اسی قسم کی چیزیں کرنے کا سخت مخالف ہوں ۔اصل میں انھی چیزوں نے مسلمانوں کو بے عمل کردیا ہے اور یہ چیزیں مجاہدے کا بدل نہیں ہوسکتیں ۔‘‘
یہ ارشاد سن کر ہمیں دو گونہ حیرت ہوئی۔ ایک اس بنا پر کہ حضرت جی اگر مکتبے وغیرہ کے ایسے ہی سخت خلاف تھے تو جماعتِ اسلامی کے سوا دوسرے مکتبے جلسہ گاہ میں کیوں برداشت کیے گئے؟دوسرے اس بِنا پر کہ کتابوں اور رسائل کی اشاعت اور قیمتاً ان کو فروخت کرنے کا گناہ تو دیوبند اور سہارن پور اور تھانہ بھون کے بزرگ بھی کرتے رہے ہیں ،بلکہ خود تبلیغی جماعت کے بھی متعدد نام ور بزرگوں سے اس کا صدور ہوا ہے۔پھر یہ کیا بات ہے کہ وہ یہی کام کریں تو خدمت دین، اور دوسرے کریں تو صرف پیسے بٹورتے ہیں ؟پھر’’اکرامِ مسلم‘‘ کا بھی یہ عجیب تصور ہمارے لیے باعث حیرت تھا کہ فسق کے علم برداروں کے خلاف زبان کھولنا تو اکرام مسلم کے خلاف ہو،مگر ایک دینی خدمت کرنے والی جماعت کے کام اور مقصد کا کھلم کھلا استخفاف کرنا اور اس کی نیت تک پر حملہ کرنا عین اکرامِ مسلم ہو۔
اس کے بعد حضرت جی نے فرمایا: ’’آپ تو حکومت کے طالب ہیں ۔آپ اس چیز کے طالب ہیں جو مردود ہے۔ حضور رسولِ مقبولﷺ کو نبوت حکومت پیش کی گئی،مگر آپؐنے اس کو رد کردیا،ٹھکرا دیا اور نبوت عبدیت قبول کی۔آپ کا یہ خیال کہ حکومت وبادشاہت میں تبدیلی ہوجائے تو اسلام زندہ ہوجائے گا،بالکل غلط ہے۔‘‘
حاضرین میں سے ایک صاحب کے اس سوال پر کہ[أیُّ الْجِھَادِ أَفْضَلُ قَالَ] كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ({ FR 1037 }) کے کیا معنی ہیں ، حضرت نے فرمایا: ’’یہ اس وقت کے لیے ہے جب پورا معاشرہ درست ہو اور صرف حکومت میں خرابی نظر آتی ہو۔ اس وقت کلمۂ حق کہنا درست ہے، تاکہ جو خرابی ابھی صر ف حکومت تک محدود ہے،وہ آگے نہ بڑھنے پائے۔اس وقت یہ موقع نہیں ہے۔‘‘
دورانِ گفتگو میں حضرت جی نے یہ بھی فرمایا کہ’’اس وقت جو لوگ برسرِ اقتدار ہیں ،وہ تم سے بہتر ہیں ۔ایمان میں ،افعال میں ، تدبیر میں اور قابلیت میں وہ آپ سے بہتر ہیں ۔آپ ان کے بجاے کون سے لوگ لائیں گے؟‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اس جماعت کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ یہ سوال اس لیے کیا جارہا ہے کہ اگر دو چار جگہ اور اسی طرح کے تلخ تجربات ہوئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اکرام واخلاص اور ہم دردی کا جو تعلق اب تک رہا ہے،اس میں فرق واقع ہوجائے۔لہٰذا اس باب میں جماعت کے کارکنوں کو واضح ہدایات مل جانی چاہییں ۔

جماعت اسلامی کے ممبروں اور ہم دردوں کے سوا ہندستان کے عام مسلمان جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور جو آپ کی اصطلاح میں محض نسلی مسلمان ہیں ،وہ شرعی اعتبار سے دائرۂ اسلام میں ہیں یا اس سے خارج؟

کیا آپ ارکانِ جماعت اسلامی کے سوا باقی سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ؟

دستور کو اسلامیانے میں مشکلات اور ان کا تجزیہ

اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں ، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کررہی ہے،اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کررکھا ہے، اور اسی وابستگی کے جذبے کے تحت اپنی ناقص آرا پیش کررہا ہوں ۔
پاکستان میں دستور وانتخاب کا مسئلہ از سر نو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ وفیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے،اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔کتاب وسنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراونفاذ بھی موجودہ دستو رکی رو سے لیجس لیچر او رصدر مملکت کی منظور ی کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آرا کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں ،سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جو اسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں ، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہوجائیں ، اور بہت سے وہ کام جنھیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا،مباحات کی فہرست میں داخل کردیے جائیں ۔ موجودہ دستور نے قرآ ن وسنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آرا کی منظوری وتعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضا مندی اور دستخطوں کا پابند بنادیا ہے، اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح وتوضیح کا محتاج بنادیا ہے۔حالاں کہ پورے دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارت،ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم وتقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے، کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔
ان معروضات میں اگر کوئی وزن اور حقیقت محسوس فرمائی جائے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اسے صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے دل آپ کی حمایت واعانت کے لیے کھول دے۔

تدریج کی حکمتِ عملی

آپ نے اپنے مکتوب کے دوسرے پیراگراف کے آخری حصے میں تحریر فرمایا ہے کہ’’ہمیں اپنے آخری مقصود کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں ، تاکہ ان میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں ۔‘‘ دراصل یہ ایک سخت مغالطہ ہے جو بہت سی تحریکات کو، بالخصوص مسلمانوں کی بیش تر جماعتوں کو پیش آتا رہا اور وہ کسی قریب الحصول مقصد میں ایسے ڈوبے کہ: ع
دریں ورطہ کشی فروشد ہزار! کہ پیدا نہ شد تختۂ برکنار({ FR 967 })
کا مصداق بن کر رہ گئے۔ حالاں کہ درمیانی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل ہے تو محض ایک ذریعہ ہونے کی۔اگرچہ آپ کا یہ اہتمام قابل ستائش ہے کہ ’’آخری مقصود نگاہوں سے اوجھل نہ رہے‘‘ لیکن میرے نزدیک درمیانی چیزوں کو قریب الحصول مقصد کا درجہ دینا ہی خطرے سے خالی نہیں ۔ ان کی حیثیت محض ذریعے کی رہنی چاہیے،مقصد کی حیثیت سے ان پر ہرگز زور نہ دینا چاہیے۔
آئیڈیل ازم اور حکمت عملی کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا صحیح طریقہ جماعت کے مقصد اورطریق کار میں یکسانیت وہمواریت کا برقرار رہنا ہے۔نیز مقصد اور طریق کار کے درمیان ایسا ربط قائم رکھنا ہے جو ہر معاملے پر راستے کے ہرموڑ کو منزل کی طرف پھیر دینے والا ہو،موجودہ دور کے ذہنی انتشار اور پراگندگی افکار پر غالب آنے کے لیے سب سے بڑی دانائی اور حکمت عملی یہ ہی ہے کہ مقصد کی ہمہ گیری کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔
لادینی دستور کی موجودگی میں ہماری جنگ ایک کھلے دشمن کے ساتھ تھی۔فرعون اور ابولہب کی ذہنیتوں سے مقابلہ درپیش تھا۔ آہن وسیف اور خار وآتش سے گزرنے والا وہ راستہ اگرچہ خوف ناک ضرور تھا مگر فریب ناک نہیں تھا۔ لیکن ایک نیم دینی دستو رکی موجودگی میں ہمارا سابقہ منافقانہ ذہنیتوں سے پڑ جاتا ہے۔جس طرح حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو پیش آیا تھا۔ پھر نیم ملا ّ خطرۂ ایمان کی مشہور کہاوت سے بھی آپ بے خبر نہیں ہوں گے۔میرے نزدیک جہاں ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دینا بڑی کامیابی ہے ،وہاں ریاست کا نیم دینی ریاست بن کر رہ جانا بھی ایک بہت بڑے خطرے کا آغاز ہوسکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے لیے بھی بہت سے داخلی فتنے پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے اس صورت حال کا جلد سے جلد تدارک کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ دستور کا نام اسلامی دستورہونا برعکس نہند نام زنگی کافور کا مصداق ہوجائے گا، اور دستور کا یہ اعلان کہ کوئی قانون، کتاب وسنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا،۱۸۵۷ء کے ملکۂ وکٹوریہ کے مشہور اعلان کی طرح کامحض کاغذی محضر بن کررہ جائے گا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مذہبی معاملات میں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔‘‘

اقامتِ دین کے لیے سعی ،نظریت او ر عملیت میں توازن

اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر دے کہ آپ نے میری معروضات پر توجہ فرمائی اور انھیں قابل التفات سمجھا۔آپ کے حوصلہ افزا جواب کے بعد ا س سلسلے میں چند اور گزارشات آپ تک پہنچادینا ضروری سمجھتا ہوں ، اسے خدا نخواستہ تحریری مباحثہ نہ تصور فرما لیا جائے،بلکہ یہ ایک ایسے شخص کے افکار پریشاں ہیں جو سال ہا سال سے مسلمانو ں کی سیاست اور عالمی پیچیدگیوں کاطالب علمانہ مطالعہ کرتا چلا آرہا ہے، اور اس بات کو اپنا ایمان ویقین تصور کرتا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا دنیا وآخرت میں واحد ذریعۂ نجات ہے۔
اگر انتخابات سے ہمارا آخری مقصود یہ ہی ہے کہ موجودہ نیم دینی دستور کو کامل اسلامی دستور میں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے اور دستورکے اسلامی تقاضوں کو بغیر کسی تحریف کے صحیح طور پر پورا کیا جا سکے، تو اس کے لیے پہلا اور زیادہ بہتر طریقہ یہی تھا کہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے، اہل تقویٰ اور اہل بصیرت، مسلمانوں پر مشتمل، لیجس لیچر کا قیام عمل میں لایا جائے اور براہِ راست اس کے لیے جدوجہد کی جاتی رہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں اس براہِ راست کوشش کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے جب کہ ملک بھر میں مختلف ومتضاد طبقے، دستور کے نام پر اسلام کی عجیب وجدید تعبیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن جماعت کے اہل الراے حضرات کی اکثریت اگر اسے مناسب نہیں سمجھتی ہے،تو پھر جداگانہ اور مخلوط طریق انتخاب کے درمیان پوری توجہ کے ساتھ تمیز کی جانی چاہیے کہ کون سا طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیاد ہ آسان اور اقرب الی الصواب ہے۔
فی الحقیقت،جب تک خدا کی حاکمیت کو واضح طور پر نہ تسلیم کیا جائے، کتاب وسنت کو مثبت طور پر قانون سازی کا ماخذ اور دستور پر بالا دست نہ مان لیا جائے، کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ واہل بصیرت ارکان پر مشتمل لیجس لیچر کا قیام عمل میں نہ آجائے اور کتاب وسنت کی تعبیر وتوضیح کا حق اصول سلف کے مطابق،ماہرین علوم اسلامیہ وحاملین شریعت کے لیے خاص نہ کردیا جائے، اس وقت تک ذرا سی غفلت سے موجودہ دستور کو غیر اسلامی مقاصد کے لیے بڑی آسانی اور آزادی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر ان مردود مقاصد کو اسلامی مقاصد کی حیثیت سے عام کیا جاسکتا ہے۔