میں نے ایک مرتبہ دریافت کیا تھا کہ بجاہ فلاں یا بحرمت فلاں کہہ کر خدا سے دعا کرنے کا کوئی شرعی ثبوت ہے یا نہیں ؟آپ نے جواب دیا تھا کہ اگرچہ اہل تصوّف کے ہاں یہ ایک عام معمول ہے لیکن قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہوسکی۔میں اس سلسلے میں ایک آیت قرآنی اور ایک حدیت پیش کرتا ہوں ۔سورۂ البقرہ میں اہل کتاب کے بارے میں آیا ہے:
وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ( البقرہ:۸۹)
’’یعنی بعثت محمدی سے پہلے یہودی کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔‘‘
اس کی تفسیر میں امام راغبؒ نے مفردات میں فرمایا ہے:
اَیْ یَسْتَنْصِرُوْنَ اللّٰہ بَبَعثَۃِ مُحمَّدٍ({ FR 1529 }) ’’یعنی بعثت محمدی کے ذریعے اﷲ سے مدد مانگتے تھے۔‘‘
وَقِیْلَ کَانُوْا یَقُوْلُونَ اِنَّا لَنُنْصَرُ بِمُحمَّدٍ عَلَیہ السلام عَلَی عَبَدَۃِ الْاَوْثَانِ۔({ FR 1530 })
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہودی یوں کہتے تھے کہ ہم کو بت پرستوں کے مقابلے میں محمد علیہ السلام کے ذریعے سے نصرت بخشی جائے گی۔‘‘
وَقِیْلَ یَطْلُبُوْنَ مِنَ اللّٰہِ بِذْکٰرِہِ الظَّفَرَ({ FR 1531 }) ’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کے ذریعے اﷲ سے فتح مانگتے تھے۔‘‘
ترمذی شریف کے ابواب الدعوات میں ایک حسن صحیح غریب حدیث مروی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اﷲ سے دُعا کریں کہ وہ میری تکلیف کو دور کردے۔آپﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دُعا کروں ، اور اگر صبر کرسکتے ہو توصبر کرو، صبر تمہارے لیے بہتر ہے۔اس نے عرض کیا: آپ دُعا فرمائیں ۔ آپﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا اور یہ دعا پڑھنے کی ہدایت فرمائی:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ۔({ FR 1532 })
’’خدایا! میں تیرے نبی محمد (ﷺ) نبی رحمت کے ذریعے سے تجھ سے دُعا کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔میں نے اپنی اس حاجت کے لیے اے پروردگار تیری طرف توجہ کی ہے، تاکہ تو میری حاجت پوری کرے۔ پس اے اﷲ! میرے حق میں محمد( ﷺ) کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
کیا اس آیت اور اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ دُعا میں بحرمت سیّد المرسلینؐ ،یا بجاہ نبی ؐ، بطفیل نبی ؐ ،یا ببر کت حضورؐ کہنا صحیح اور جائز ہے؟

مسئلہ حیات النبیﷺ

آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبی کا مسئلہ ہر وقت گونجتا رہتا ہے اور علماے کرام کے نزدیک موضوع سخن بنا ہوا ہے۔شروع میں تو فریقین اپنی اپنی تائید میں علمی دلائل دے رہے تھے مگر اب تکفیر بازی،طعن وتشنیع اور پگڑی اچھالنے تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ الا ماشاء اﷲ۔
بعض مساجد میں بآواز بلند کہا جارہا ہے کہ انبیا اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ دنیا میں زندہ تھے اور حیات النبی کا منکر کافر ہے۔ بعض دوسرے حضرات حیات جسمانی کے عقیدے کو مشرکانہ بلکہ منبع شرک قرار دے رہے ہیں ۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہوتا ہے، وہاں ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو قرآن کریم اور خبر متواتر کے خلاف نہ ہو،مانی جاسکتی ہے۔لیکن جب بات عقیدے کی حد تک پہنچ جائے تو وہاں قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔آپ براہِ کرم میرے دل کی تسلی اورتشفی کے لیے مسئلہ حیات النبیﷺ پر روشنی ڈالیں ۔

مسلم اور مومن کے معنی

میرے شیعہ دوست اسلام اور ایمان کے الفاظ کو اصطلاحی معنوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال کرتے ہیں ۔وہ اسلام سے مراد محض ظاہری اطاعت لیتے ہیں جس کی پشت پر ایمان موجود نہ ہو۔ اور ایمان سے مراد حقیقی اور قلبی ایمان لیتے ہیں ۔ ان کا استدلال سورۂ الحجرات کی اس آیت قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا… سے ہے،جس میں عرب بدوئوں کو مومن کے بجاے مسلم قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے۔بعض فرقے اس استدلال کی آڑ میں اپنے آپ کو مومن اور عامۃ المسلمین کو محض مسلم قرا ردیتے ہیں ، حتیٰ کہ خلفاے راشدین میں سے اصحاب ثلاثہ کو بھی مومن کے بجاے مسلم کہہ کر در پردہ ان کے ایمان پر چوٹ کی جاتی ہے۔ براہِ کرم مذکورہ بالا آیت کی صحیح تأویل اور مومن ومسلم کی تشریح بیان فرمائیں ۔

نماز کی ہیئت

میں نے ایک دین دار شیعہ عزیز کی وساطت سے مذہب شیعہ کی بکثرت کتب کا مطالعہ کیا ہے۔شیعہ سنی اختلافی مسائل میں سے جو اختلاف نماز کے بارے میں ہے،وہ میرے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔میں اپنے شکوک آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ تفصیلی جواب دے کر ان کا ازالہ فرمائیں ۔
میرے شبہات نماز کی ہیئت قیام سے متعلق ہیں ۔نماز اوّلین رکن اسلام ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑ دینے کے بارے میں ائمۂ اربعہ کے مابین اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ و مالکؒ کا انحصار محض روایات پر تھا۔برعکس اس کے امام جعفر صادق ؒ نے اپنے والد امام باقر ؒ کو،انھوں نے زین العابدینؒ کو اور انھوں نے حسینؓ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ وہ قیام میں کیسے کھڑے ہوتے تھے۔شنیدہ کے بودمانند دیدہ۔({ FR 1635 })

إِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمْ الثَّقَلَیْنِ کا مفہوم

افسوس اس امر کا ہے کہ ارشاد نبوی إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِي ({ FR 1615 }) کے باوجود ائمۂ اہل سنت نے رفع اختلاف کے لیے اہل بیت کی طرف رجوع نہیں کیا، حالاں کہ امام اعظمؒ اور امام مالکؒ،امام جعفر صادقؒ کے معاصر بھی تھے۔اس طرح رسولؐ کے گھر والوں کو چھوڑ کر دین کے سارے کام کو غیر اہل بیت پر منحصر کردیا گیا اور مسائل دین میں اہل بیت سے تمسک کرنا تو درکنار، ان سے احادیث تک نہیں روایت کی گئیں ،حالاں کہ بقول ’’صَاحِبُ الْبَیْتِ ادری بِمَا فیِ الْبَیْتِ‘‘ دین کا اصل منبع ائمہ اہل بیت تھے۔

اہل بیت کا غیر اہلِ بیت سے علمی استفادہ

ترجمان القرآن ستمبر۱۹۵۶ء میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ:’’ائمۂ اربعہ نے ان تمام اہل علم سے استفادہ کیا ہے جوان کے عہد میں موجود تھے اور جن سے استفادہ کرنا ان کے لیے ممکن تھا۔صرف اہل بیت سے علمی استفادہ کرنے کا طریقہ خود اہل بیت نے بھی اختیار نہ کیا۔وہ جس جس کے پاس علم پاتے تھے،اس سے استفادہ کرتے تھے۔یہی ہر اس شخص کا طریقہ ہونا چاہیے جو کسی طرح کے تعصب میں مبتلا نہ ہو۔‘‘
میر ے ناقص مطالعے میں آج تک یہ بات نہیں آئی اور نہ کبھی کسی سے ایسا سنا ہے۔آپ اس کے ثبوت میں چند معتبر کتب کے حوالے دیں تاکہ مدعا زیادہ واضح ہوجائے۔

حدیث میں بارہ اماموں کا ذکر

میرا سوال صحیح بخاری، کتاب الفتن،باب الاستخلاف کی ایک حدیث سے متعلق ہے۔ حدیث یہ ہے :
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا، فَقَالَ كَلِمَةً لَمْ أَسْمَعْهَا. فَقَالَ أَبِي: إِنَّهُ قَالَ: كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ۔({ FR 1538 })
اس حدیث میں جن بارہ امرا کا ذکر ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ اہل تَشَیُّع میں سے اثناعشری حضرات ان سے مراد اپنے بارہ امام لیتے ہیں ۔کیا ان کا یہ استدلال آپ کے نزدیک صحیح ہے؟

پبلک مقامات پر تبرا بازی

جماعت اسلامی پاکستان ایک نہایت عظیم اور بلند مقصدلے کر اٹھی ہے۔ہماری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جماعت اسلامی کو کام یابی دے تاکہ پاکستان میں اسلامی دستور کا بول بالا ہو۔
جس چیز کی طرف ہم آپ کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں وہ بھی اسلام کے لیے ایک نہایت ہی بنیادی چیز ہے اورمقام افسوس ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی، اور اسی وجہ سے یہ معاملہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔امید ہے کہ آپ خندہ پیشانی سے غور فرما کر جواب دیں گے۔
موجودہ دور کچھ اس قسم کا گزر رہا ہے کہ شیعہ فرقہ انتہائی طورپر منظم ہے اور وہ متفقہ طور پر ہر جگہ اپنی تقریروں ، تحریروں اور پمفلٹوں کے ذریعے صحابہ کرامؓ پر زہراُگل رہا ہے جن میں ان کے وزرا بھی ہماری غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ، اور ہمارے لیڈران کرام اور علما حضرات آپس کی کش مکش میں اسلام کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں ۔
یہ لوگ مذہبی آزادی کی آڑ میں ہر جگہ نئے نئے لائسنس عزا داری لے کر اوران لائسنسوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلے بندوں علانیہ تبرّا کررہے ہیں ۔اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے گورنمنٹ کی مخالفت کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں ۔گویا حکومت لائسنس کی آڑ میں تبرا کروارہی ہے، اور لائسنسوں ہی کی وجہ سے گورنمنٹ خود ان کی نگاہ داشت بھی کرتی ہے۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کا ہر فرد اپنے فرقے کی ترقی کے لیے جائز وناجائز طریقے سے اپنے خاص عقائد کو پھیلانے کے لیے پوری جدوجہد سے کام لے رہا ہے اور تمام شیعہ پریس بھی تبرا بازی پر مشتمل مضامین شائع کررہا ہے اور ان کے علما ہر جگہ عزا داری کی آڑ لے کر’’قتل حسین درسقیفہ‘‘ کے عنوا ن پر تقریریں کررہے ہیں ۔ ہمارے بے علم عوام ان کی تقریریں سن سن کر گمراہ ہورہے ہیں اور شیعہ مذہب سیل رواں کی طرح ملک کے مختلف حصوں میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔
اب اس کے بعد ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مٹھی بھر علماکی جماعت یا کوئی ادارہ ناموس ِ صحابہؓ کی مدافعت کی خاطر میدان عمل میں نکلے تو اس کاکام کچھ تو جماعت اسلامی کی تنقید کی نظر ہوجاتاہے اور کچھ نقصان گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی مخالفت سے گورنمنٹ بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ملاّ فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دے رہے ہیں ، اور اسی وجہ سے وہ حضرات زبان بندیوں اور پابندیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ المنیرجلد ۸، شمارہ۳۶،۱۷ ستمبر، سہ روزہ’’دعوت‘‘ لاہور کی ضمانت طلبی پر صرف صحافت کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے ہم دردی کا اظہار کرتا ہے اور بعد میں اس طرح سے تنقید کرتاہے کہ ’’یہ طریقۂ کار اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارے نزدیک زیادہ مفیدنہیں ہے اور ہمارا دینی مسلک اس موضوع میں معاصر سے مختلف ہے۔‘‘
اتنے گندے ماحول میں آپ خود ہی اندازہ کریں ،کیااس تنقید سے شیعہ پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ حالاں کہ اپنے مضمون میں المنیر نے خود بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’عزاداری تبرا بازی میں بدل چکی ہے۔‘‘
ہم آپ سے مؤدّبانہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے علماے کرام،سیاسی لیڈر، ادارے،اخبار اور خصوصاًآں نجناب اور جماعت اسلامی کیوں خاموش ہیں ؟کیوں نہیں کوئی باہمی اور متفق صورت اختیار کی جاتی؟ کیا اسلامی قانون میں کوئی تبرا کرنے کی گنجائش ہے؟ اکثر مقامات میں عشرۂ محرم میں کھلی جگہ پر تبرا بازی کی گئی ہے اور یہ نوحے برسر عام لائوڈ اسپیکر پر پڑھے گئے ہیں : ع
آقا کے چھوڑ جنازے کو کیوں بھاگے یار سقیفہ کو
کیوں چھوڑ دیا جنازے کو قرآن کے حافظ یاروں نے
کیوں یاروں نے من بعد نبی اس گھر پر آ گستاخی کی
کیوں کھایا آل نبی کا حق قرآن کے دعوے داروں نے
جس کے گھر سے فیض اٹھاون اس دے گھر نوں آگ لگاون
کیوں دنیا حق نوں بھل گئی ہے، کیوں آل نبی دی رل گئی اے
گئے یار سقیفہ جس دَم، کیا مشورہ مل کر باہم
کرو اپنی حکومت مستحکم…
وغیرہ، وغیرہ۔یہ نوحہ جات چھپے ہوئے ہیں ۔
اس کی اطلاع جب بروقت ایس ڈی او صاحب اور ڈی ایس صاحب کو دی تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ ہم اپنی ڈائری میں لکھ رہے ہیں ، ان کے پاس لائسنس عزا داری ہے، ہمیں قصور وار ٹھیرایا کہ تم جلوس میں گڑبڑکرنا چاہتے ہو اور ہمارے نام درج کر لیے۔ اس کے بعد حسب دستور عصر کی اذان وقت مقررہ پر لائوڈ اسپیکر پر دی گئی تو شیعہ کے مبلغ اعظم محمد اسماعیل گوجروی نے دوران تقریر میں ہماری اذان کو یزیدی اذان سے تشبیہ دی اور کہا یہ وہی اذانیں ہیں جو کوفہ میں ہور ہی تھیں جب کہ حسینؓ کا قافلہ اسی طرح لٹا جارہا تھا ۔اور بعد میں حضرت عائشہ صدیقہؓ پر ناجائز حملے کرنے شروع کردیے جو کہ بیان کرنے ہی نامناسب ہیں ۔ پھر تقریر میں باغ فَدَک، خلافت اور حدیث قرطاس کے مضمون بیان کرنے شروع کیے۔
عالی جاہ! ہندستان میں اگر مذہبی را ہ نما کتاب چھپے جس میں نبی کریمﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی توہین ہو تو جناب اور آپ کی جماعت او ر دوسری جماعتیں اور دیگرعلماآپ کے کہنے کہانے پرمتفقہ ریزولیشن پاس کرکے اس کے ضبط کرنے کے لیے غیر حکومت میں پوری جدوجہد کرتے ہیں اور بفضل خدا کام یاب بھی ہوجاتے ہیں ۔کیا اس کتاب میں کسی اور عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی توہین ہے اور شیعہ کسی اور عائشہ کی توہین کرتے ہیں ؟