رفع یدین اور آمین بالجہر
براے مہربانی رفع یدین اور آمین بالجہرکے بارے میں اپنی تحقیق سے آگاہ کیجیے۔
براے مہربانی رفع یدین اور آمین بالجہرکے بارے میں اپنی تحقیق سے آگاہ کیجیے۔
براے مہربانی نمازِ جمعہ میں شرطِ مصرکے بارے میں اپنی تحقیق سے آگاہ کیجیے۔
براہِ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے؟ نبی ﷺ اپنی اُمت کی شفاعت کس حیثیت سے کریں گے،نیز آیا وہ ساری اُمت کی طرف سے شفیع ہوں گے؟
نذر،نیاز اور فاتحہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
کیا ہر شخص ہر دوسرے متوفیٰ شخص کوخواہ متوفی اس کا عزیز ہو یا نہ ہو،یا متوفیٰ نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی تربیت میں حصہ لیا ہو یا نہ ، مالی انفاق کا ثواب پہنچا سکتا ہے یا کہ اس کے لیے آپ کے نزدیک چند قیود وشرائط ہیں ؟ ازراہ کرم اپنی راے تحریر فرما دیں ۔
آپ خودایصال ثواب کرنے والے کے لیے تو انفاق کوبہرحال نافع قرار دے رہے ہیں مگر متوفیٰ عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرار دے رہے ہیں ۔اس تفریق کی اصل وجہ کیا ہے؟
رسائل ومسائل] سوال نمبر۸۰۲ [ میں ’’نذر،نیاز اور فاتحہ کی شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان کے تحت جو جواب آپ نے رقم فرمایا ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ مالی عبادت سے ایصال ثواب ہوسکتاہے مگر بدنی عبادت سے نہیں ، اور پھر آپ مالی انفاق کے بھی متوفی عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرا ردے رہے ہیں ۔ کیا آپ کے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اس امر کی بابت کوئی صراحت قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہ بدنی عبادت میں ایصال ثواب ممکن ہے؟ یا کوئی اور سبب ہے؟
مجھے مذہبی تنازع اور تفرقے سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزوی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش خود شریعت میں موجود ہے، ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں ۔ اسی طرح اگر نبی ﷺ سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہاے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حدکے اندر شمار کرتا ہوں ۔مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں ۔چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں ،کبھی اِس پر اور کبھی اُس پر۔مجھے اپنے اس مسلک پر پورا پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اِسے اختیار کیا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے وضاحت مطلوب ہے۔
تحریک کا ہم درد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان ودیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں ، سب کو بالالتزام پڑھتا رہا ہوں ۔اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سواے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔
ان فتووں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ تکفیر وتفسیق کا معاملہ جماعتِ اسلامی اور بزرگان دیو بند ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،بلکہ جب ہم اسلاف کرام و ائمۂ عظام کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان بزرگوں کی سیرتوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف فیہ پاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن حزم اَندلسیؒ، امام ابن جوزیؒ وغیر ہم اکابر ہیں ۔دوسرے گروہ میں امام ابن العربی ؒ،امام غزالی اور امام ولی اﷲؒجیسے بزرگ ہیں ۔ان میں سے پہلا گروہ کہتا ہے کہ لا الٰہ اِلا اللّٰہ کا مطلب لا معبود الا اللّٰہ ({ FR 1605 }) ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب لا موجود الا اللّٰہ ({ FR 1606 })ہے۔ پہلا گروہ دوسرے گروہ کے اس عقیدے کو کفر والحاد کہتا ہے۔دوسرا گروہ اپنے اس عقیدے کو توحید کا اعلیٰ واکمل درجہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ و ہ کلمہ جس کی تشریح کے لیے قرآن نازل کیا گیا،اسی کے متعلق علماے اُمت وائمۂ وقت کا یہ اختلاف کیوں ہے؟
اُمید ہے کہ آپ اس مسئلے پر ترجمان القرآن میں مفصل بحث فرمائیں گے۔
کیا آلاتِ موسیقی بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز ہے؟