عریانی روکنے کی تدبیر

کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان، اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ ودل فریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ وسرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسر عام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ کی فلموں سے متاثر ہوکر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں ۔تو کیا حکومت قانون(legislation) کے ذریعے سے ہر مسلم وغیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی؟والدین وسرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟

عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل

مارننگ نیوز] کراچی[ کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل بیوی کی خصوصیات بیان کی ہیں ۔اس کٹنگ کا ترجمہ یہ ہے:
’’رومن کیتھولک عدالت طلاق کے سابق جج سرہربرٹ ولنگٹن نے اپنے ایک فیصلے میں ایک مکمل بیوی کی چودہ خصوصیات گنائی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: صوری کشش،عقل مندی، محبت، نرم خوئی، شفقت، خوش اطواری، جذبۂ تعاون، صبر وتحمل، غور وفکر، بے غرضی، خندہ روئی، ایثار، کام کی لگن اور وفا داری۔
سرہربرٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تمام خصوصیات ان کی دوسری بیوی میں موجود تھیں جس سے انھوں نے اگست ۱۹۴۵ء میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد شادی کی تھی۔سرہربرٹ جنھوں نے اپنی عدالت میں سیکڑوں ناکام شادیوں کو فسخ کیا ہے،۸۶برس کی عمر پاکر جنوری۱۹۶۲ء میں وفات پا گئے ہیں ۔‘‘
اس کٹنگ سے واضح ہوتا ہے کہ سرہربرٹ نے عفت یا پاک دامنی جیسی خوبی کو اِ ن چودہ نکاتی فہرست میں براے نام بھی داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔گویا اب پاک دامنی کا شمار عورت کی خوبیوں میں نہیں کیا جاتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک عورت پاک دامنی کے بغیر کس طرح خاوند کی وفا دار رہ سکتی ہے؟

اجتہاد کے حدود اور وضو کرنے کی حکمت

میرے ایک جرمن نومسلم دوست ہیں جن سے میرا رابطہِ مراسلت قائم ہے۔وہ مجھ سے اپنے بعض علمی وعملی اشکالات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حال ہی میں ان کا ایک خط آیا ہے جس میں انھوں نے دریافت کیا ہے کہ فقہی احکام میں ’’اجتہاد‘‘ کے اصول کے تحت کہاں تک تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بہت سے تفصیلی احکام فقہا کے اخذ کردہ اور مرتب کردہ ہیں اور نبیﷺ کی وفات کے بعد بعض خاص جغرافیائی اور تمدنی حالات کی پیداوار ہیں ۔ کئی صدیوں تک تو اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تھا مگر اس کے بعد اصولاً ضرورت اجتہاد کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاًاسے بند کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں بالخصوص یورپ کے مسلمانوں کو بعض احکام کی تعمیل میں دشواری پیش آتی ہے ۔مثال کے طور پر وہ وضو کے مسئلے کو لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وضو میں ہر مرتبہ پائوں دھونا اہل یورپ کو مشکل اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہاں لوگ ہمیشہ جراب اور بند جوتے استعمال کرتے ہیں ،اس لیے پائوں کے گرد آلود یا ناپاک ہونے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سردیوں میں پائوں دھونا آسان بھی نہیں ہوتا۔یہی معاملہ منہ دھونے کا ہے۔یورپ کے شہروں میں بالعموم مٹی نہیں اُڑتی اورپسینہ بھی براے نام آتا ہے اس لیے ان کے نزدیک منہ اور پائوں کا دن میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا چاہیے۔
آپ براہِ کرم میرے دوست کے خیالات پر صحیح اسلامی نقطۂ نظر سے تنقید کریں اور اس کا جو پہلو اصلاح طلب ہو، واضح فرمائیں ، تاکہ میں انھیں اطمینان بخش جواب دے سکوں ۔

دوسرے فقہی مذاہب پر عمل کا حکم

ہمارے اس زمانے میں مذاہب ِ اربعہ میں سے کسی ایک کی پابندی پہلے سے زیادہ لازمی ہوگئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی صاحب علم وفضل چار معروف مذاہب فقہ کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے یا اجتہاد کرنے کا حق دار ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کس دلیل سے؟اور اگر جائز ہے تو پھر طحطاوی میں ایک بڑے صاحب کما ل فقیہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
اَلْمُنْتَقِلُ مِنْ مَذْھَبٍ إِلٰی مَذْھَبٍ بِإِ جْتِھَادٍ وَبُرْھَانٍ اٰثِمٌ یَسْتَوْجِبُ التَّعزِیْرَ۔ ({ FR 2049 })

مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ

اگر حنفی اور شافعی نقطۂ نظر کے درمیان اختلاف ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ حنفیوں کے معاملے میں صرف حنفی نقطۂ نظر ہی قبول کیا جائے؟ اور خاص کر جہاں عدالت اس راے پر پہنچے کہ شافعی نقطۂ نظر زیادہ وزن دار ہے؟

فقہی مسالک کے لیے لفظ ’’مذاہب‘‘ کا استعمال

جنوری کے ترجمان القرآن میں آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حنفی فرقہ یا شافعی فرقہ کے لیے حنفی مذہب یا شافعی مذہب کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ میرا مذہبی علم ایک عام مسلمان کا سا ہے جو مذہب کو ان فرقہ بندیوں سے کچھ اوپر تصور کرتے ہیں ۔ کیا ہم سب فرقوں کا مذہب ایک نہیں ہے؟

ملکی قوانین اور پرسنل لا کا مسئلہ

موجودہ آئین میں بنیادی حقوق کے ترمیمی قانون کے ذریعے اضافہ شدہ پرنسپلز آف پالیسیز کے تحت جہاں یہ درج ہے کہ ملک کے قوانین اسلام کے خلاف نہیں ہوں گے وہاں یہ لکھا گیا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح ہر فرقہ اپنے عقائد کے مطابق خود کرے گا۔ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں ؟

کیا ہمارے ملک میں قانون سازی کے لیے اور پھر عدالتوں کے ذریعے ان قوانین کے نفاذ اور تعبیر و تشریح کے لیے ہر فقہ کے اپنے اپنے علما کو اختیارات دیے جائیں گے؟

تدوین قانون میں اکثریت کے فقہی مسلک کا لحاظ

آپ نے غالباًکہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہوگی،قوانین انھی کے فیصلوں کے مطابق بناے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاًپاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لا کی گنجائش رکھی جائے گی۔اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو ائمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کے بجاے محض کتاب وسنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی انھی کو قانونی جواز حاصل ہو جائے گا؟پہلی صورت میں قوا نین کا ماخذ کتاب وسنت کے بجاے فقہاے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب وسنت ہی ٹھیرے گا۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر ونظر اور مسلکی عصبیت وحمیت دخیل نہ ہوگی۔اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہاے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔صرف چند اُلجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں ،اُن کا حل مطلوب ہے۔

صدرِ مملکت کو ویٹو کا حق

کچھ عرصے سے اخبارات کے ذریعے سے تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ صدر پاکستان کو خلیفۃ المسلمین یا امیر المؤمنین کے معزز خطاب سے آراستہ کیا جائے۔اس تصور میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر کو حق تنسیخ ملنا چاہیے، کیوں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جلیل القدر صحابہ کے مقابلے میں ویٹو سے کام لیا اور منکرین زکاۃ ومدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے جہاد کا حکم دے کر صحابہ کرامؓ کی راے کو ردّ کردیا۔ گویا اس دلیل سے شرعی حیثیت کے ساتھ ویٹو جیسے دھاندلی آمیز قانون کو مستحکم فرمایا جارہا ہے۔
ان حالات کی روشنی میں جناب والا کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جارہے ہیں ، امید ہے کہ بصراحت جوابات سے مطمئن فرمائیں گے۔
(۱)کیا حضرت ابوبکر ؓنے آج کے معنوں میں ویٹو استعمال فرمایا تھا؟ اور
(۲) اگر استعمال فرمایا تھا تو ان کے پاس کوئی شرعی دلیل تھی یا نہیں ؟