سات آسمانوں کی حقیقت

آپ نے سورۂ البقرہ کے حاشیہ نمبر۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں ۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں ، یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیو ں نہیں کرتے؟

حیاتِ برزخ اور سماعِ موتیٰ

تفہیم القرآن کا مطالعہ کررہا ہوں ۔ الحمد ﷲ بہت اچھے طریقے سے مضامین قرآن مجید دل نشین ہوجاتے ہیں ۔لیکن بعض مواقع پر کچھ اشکال محسوس ہوئے ہیں ۔ ان کو پیش خدمت کیے دیتا ہوں ، براہِ کرم ان کاحل تجویزفرما کر مرحمت فرمائیں ۔ یہ چند معروضات اس لیے ارسال کررہا ہوں کہ میں نے آپ کی تصنیفات میں سے رسائل ومسائل حصہ اوّل ودوم اور تفہیمات حصہ اوّل و دوم کو بہ نظر غائر دیکھا ہے۔ ان میں آپ نے جن آیات اور احادیث پر قلم اٹھایا ہے،ان کے مفاہیم کو دلائل سے واضح فرمایا ہے۔بنا بریں میں امید کرتا ہوں کہ میری پیش کی ہوئی گزارشات کو بھی دلائل سے بیان فرما کر میری تشفی فرمائیں گے۔
فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ({ FR 2250 }) (یونس:۲۹) کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’یعنی وہ تمام فرشتے اور وہ تمام جن وارواح، اسلاف واجداد، انبیا (؊) اولیا، شہدا وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انھیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقوق تھے،وہا ں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لارہے ہو۔ تمھاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار او ر فریاد، کوئی نذرونیاز، کوئی چڑھاوے کی چیز، کوئی تعریف ومدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی وآستانہ بوسی ودرگاہگردی ہم تک نہیں پہنچی۔‘‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جتنے لوگ مرچکے ہیں ،خواہ وہ انبیا؊ ہوں یا اولیاے کرام ہوں ، وغیرہ، ان کے مزاروں اور قبروں پر جاکر لوگ چیخیں چلائیں اور حاجات کے لیے پکاریں ،وہ اس سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور کچھ نہیں سنتے، اور اس مضمون پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں ۔ مثلاً سورۂ النحل فَاَلْقَوْا اِلَيْہِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ ({ FR 2251 }) (النحل:۸۶) میں بھی آپ نے تصریح فرمائی ہے۔ اور اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی({ FR 2252 }) (النمل:۸۰) وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ ({ FR 2253 }) (فاطر:۲۲) اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاءَكُمْ ({ FR 2254 }) (فاطر:۱۴) وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ({ FR 2255 }) (الاحقاف:۵) لیکن جب حدیث کی طرف نظر پڑتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زیارت کرنے والے کو پہچان لیتے ہیں اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ۔ یہاں پہنچ کر ذہن قلق واضطراب کا شکار ہوجاتا ہے اور کوئی صحیح مطلب برآری نہیں کرسکتا اور نہ کوئی صحیح تأویل سمجھ میں آتی ہے ۔ لہٰذا اس مضمون کی چند حدیثیں پیش خدمت کرتا ہوں ،براہِ کرم ان حدیثوں کا مطلب بیان فرما کر عقدہ کشائی فرما ویں ۔
(۱)مقتولین بدر سے حضور ﷺکا اَلَیْسَ قَدْ وَ جَدتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًا({ FR 2087 }) فرمانا اور حضرت عمر ؓ کا یہ کہنا : ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا ({ FR 1944 }) اور حضورﷺکا ارشاد فرمانا: مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْھُمْ صاف دلالت کرتاہے کہ مردے سنتے ہیں ۔ اس حدیث کی تأویل جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے،اس کی رو سے حضرت عمرؓ کے سوال اور حضورؐ کے جواب میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔
(۲) مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ({ FR 1945 })
(۳) فی الصحیحین من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ({ FR 1946 })
دوسری چیز جو قابل توضیح ہے وہ یہ ہے کہ سورۂ النحل کی اس آیت وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۱-۲۰)کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں ۔‘‘ اور کچھ آگے چل کر تحریرفرماتے ہیں کہ ’’لامحالہ اس آیت میں وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد انبیا،اولیا،شہدا، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں …الخ۔‘‘ اب عرض یہ ہے کہ سورۂ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو موتیٰ کہنے کی نہی فرمائی ہے۔ ارشاد موجود ہے: وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ:۱۵۴) اسی سورت میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کیوں کہا؟ بظاہر آپ کی تشریح کے لحاظ سے ان دونوں آیتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کے عموم میں آپ نے انبیا ؊ کو بھی داخل کیا ہے، حالاں کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا؊ قبروں میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں ، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ،سلام سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔
(۱)اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیائٌ فِیْ قُبُوْرِ ھِمْ یُصَلُّونَ۔({ FR 1947 })
(۲) مَرْرْتُ بِمُوْسٰی لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِہٖ وَھُوَقَائِمٌ یُصَلّیِ فِیْ قَبَرہٖ۔({ FR 1948 })
(۳) مَنْ صلّٰی عَلیَّ عَنْدَ قَبْرِیْ سَمِعُتہُ وَمَنْ صَلّٰی عَلیَّ نَائِیًا اُبْلٍغْتُہ۔({ FR 1949 })
حتیٰ کہ بعض بزرگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعد از وفات حضورﷺ[حضور نہیں بلکہ حضرت زید بن خارجہ انصاریؓ] کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور جنازہ میں کلام فرمایا کہ بئرأریس وما بئر اریس ؟({ FR 2256 }) سوف تعلمون[یہ اضافہ ہے] اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض اصحاب نے سنا۔ یہ تو وفات کے فوری بعد کی بات تھی کہ روح نے جسم کوکلیتاً نہیں چھوڑا تھا لیکن بعد میں تاحشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا۔ خیر بزرگوں کے اقوال کو چھوڑیے۔ مذکورہ بالا حدیثیں آپ کی تفسیر کے خلاف پڑتی ہیں ، براہِ کرم ان کی تشریح کیجیے۔

معجزہ بطور دلیلِ نبوت

سورۂ العنکبوت میں آیت ۵۰ کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔میرے پاس جو قرآن پاک کی تفسیر ہے ،اس میں بھی ان کی وضاحت نہیں ملی۔لہٰذا آپ کی دینی بصیرت سے اُمید قوی ہے کہ آپ ان کی تفصیل سے آگاہ فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے۔
سورۂ العنکبوت آیت ۵۰ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے:
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
’’اور کہتے ہیں ( منکر) کہ کیوں نہ اتریں اس پر کوئی نشانیاں اس کے ربّ سے۔ (آپ) کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو ہیں اختیارمیں اﷲ کے اور میں تو یہی سنا دینے والا ہوں کھول کر۔‘‘
مندرجہ بالا آیت قرآنی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے۔ معجزات حضورﷺ کو عطا نہ کرنے کی جو وجوہات قرآن پاک میں درج ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں ۔مگر کیا اس سے حضور رسالت مآبؐ کی شانِ مبارک میں فرق نہیں آتا کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو نشانیاں اور معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطافرمائے کہ جن کی شہادت قرآن پاک خود دے رہا ہے اور حضورﷺ کو اس سے بالکل جواب دے دیا؟
سیرت نبوی میں حضور ﷺ کے بہت سے معجزات درج ہیں ۔مثلاًمعجزۂ شق القمر، تھوڑے سے تھوڑے کھانے سے جماعت کثیر کا سیر ہو جانا، کنکریوں کا کلمۂ شہادت پڑھنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بظاہر قرآنی شہادت کی بِنا پر غلط معلوم ہورہے ہیں ۔

حق کے معانی اور استعمالات

قرآن کریم میں ’’حق ‘‘کی اصطلاح کن کن معنی میں استعمال ہوئی ہے؟اور وہ معنی ان مختلف آیات پر کس طرح چسپاں کیے جاسکتے ہیں جو تخلیق کائنات بالحق، کتاب بالحق، رسالت بالحق اورلِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ({ FR 2257 }) (الانفال:۸) کے تحت حق کی ہم آہنگی، تسلسل اور ارتقا پر روشنی ڈالتے ہیں ؟

قلب کا درست مفہوم

اسی طرح ایک اور الجھن بھی ہے، امید ہے کہ آپ اسے بھی حل فرما دیں گے۔ کیا دل اور عقل ایک ہی چیز ہیں یا ان دونوں کے وجود الگ الگ ہیں ؟

فرعون موسیٰ ایک تھا یا دو؟

میں تفسیر قرآن کے سلسلے میں اپنا ایک شبہہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ ترجمان جنوری۱۹۶۱ء میں سورۂ القصص کی تفسیر کرتے ہوئے جناب نے میرے خیال میں اسلاف مفسرین کے خلاف حضرت موسیٰ ؑ کے بالمقابل ایک کے بجاے دو فرعون قرار دیے ہیں ، حالاں کہ قرآن کے متعلقہ مقامات کا مطالعہ کرنے سے فرعون سے مراد ایک ہی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔ جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰؑ بھیجے گئے،یہ وہی فرعون ہے جو انکارِ دعوت کے بعد غرق ہوا۔اسی طرح فرعون کی بیوی کا حضرت موسیٰ ؑکو پرورش کرنا بھی قرآن میں مذکور ہے، اور پھر انھی خاتون کے اسلام لانے پر ان کا فرعون کے ہاتھوں ستایا جانا بھی معلوم ہوتاہے۔ کیوں کہ انھوں نے فرعون سے نجات پانے کے لیے دُعا مانگی تھی۔میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کس بِنا پر غرق ہونے والے فرعون کو اس فرعون سے جدا سمجھا ہے جس کے گھر میں حضرت موسیٰ ؑپالے گئے تھے؟

غرق ہونے والے فرعون کی لاش (سورہ یونس، آیت ۹۲)

اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو از راہِ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ ({ FR 2258 }) (یونس:۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو اُلجھنیں دور فرمائیے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرئہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش۱۹۰۰ء میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔
اگر آپ کو باقی شہادتوں کا علم ہو، یا کوئی ایسی کتاب معلوم ہو جس میں ان شواہد کا ذکر ہو تو ازراہِ کرم مطلع فرمائیں ۔
آپ نے فرعون کے جسم پر سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے۔ کیا اس کی ممی حنوط شدہ نہیں تھی؟ اگر تھی تو سمندری نمک کیسے باقی رہ گیا تھا؟
کیا نعش کسی ہرم سے ملی تھی یا معمولی قبر سے؟ اور یہ مقام کہاں ہے؟ قاہرہ سے کس طرف ہے اور کتنا دور ہے؟

حضرت خَضِر؈ کی بشریّت کا مسئلہ

تفہیم القرآن جلد سوم سورۂ الکہف،زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر؈ کا واقعہ اورآپ کا حاشیہ نمبر۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں ۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے اُمور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں ۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکرائو‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خَضِر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں ان کو فرشتے انجام نہیں دیا کرتے۔ رضاے الٰہی کسی انسان کے نفع و ضرر کے پیشِ نظر، کسی فرشتے یا کارکنانِ قضا و قدر کو، کسی خاص مشن پر اُسی وقت مامور فرماتی ہے جب انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے اور اس کی ساری توانائی اور اس کے تمام ذرائع و وسائل جواب دے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی کارکردگی کے طور طریقے بھی انسانی طور طریقوں سے بالکل مختلف اور ممتاز قسم کی ندرت بھی رکھتے ہیں ۔
کشتی کا تختہ توڑنے، لڑکے کو ہلاک کرنے اور گرتی دیوار کو سنبھالا دینے کے لیے کسی فرشتے کی توانائی درکار نہیں ہوتی۔ یہ معمولی انسانی کام ہیں اور ان میں وہ امتیازی نُدرت بھی نہیں پائی جاتی جو غیبی کارکردگی کی طرف ذہن کو منتقل کرسکے۔ اس لیے قرینہ یہی کہتا ہے کہ حضرتِ خضرؑ بشر تھے، فرشتہ نہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرؑ دونوں نے اہل قریہ سے غذا کی خواہش کی تھی جیسا کہ جمع کے صیغے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں بھوکے تھے، دونوں کو احتیاجِ غذا تھی۔ اگر حضرت خضرؑ واقعی فرشتہ ہوتے تو وہ احتیاجِ غذا سے یقیناً مستغنی ہوتے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ نے جب تلا ہوا بچھڑا فرشتوں کی ضیافت میں پیش کیا تو وہ اس وجہ سے دست کش رہے کہ احتیاجِ غذا سے فطرتاً مستغنی تھے۔ اس سے بھی یہی قرینہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضرؑ بشر تھے۔ فرشتہ نہ تھے۔
بے قصور لڑکے کی ہلاکت صرف حضرت موسیٰعلیہ السلام جیسے حاملِ شریعت ہی کے لیے باعثِ حیرت اور موجبِ اذیت نہ تھی بلکہ ہر سلیم الفطرت انسان کی نظر میں بھی اس کی قباحت واضح تھی۔ مگر حکمِ الٰہی مل جانے کے بعد بجز تعمیلِ حکم کے کوئی گنجایش ہی کہاں تھی۔ یا اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اپنی چہیتی اولاد کو حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی اُس شریعت کا سہارا لے کر کوئی عذرِ شرعی پیش کرنے پر مائل تک نہ ہوسکے جس کی رُو سے ناکردہ گناہ اولاد کا قتل، گناہِ عظیم ہے۔
دونوں بزرگوں نے تعمیلِ حکمِ الٰہی کی پیش رفت میں جس جرأت مندانہ انداز میں احتسابِ شریعت سے اجتناب فرمایا اس سے تو بظاہر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معمولاً احکامِ شریعت کی پابندی لازم ہے، مگر جب کسی شخص کو کسی امرِ خاص میں بطورِ خاص براہِ راست حکمِ الٰہی مل جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ احکامِ شریعت سے صرفِ نظر کرسکے۔
ان بزرگانِ محترم کے طرزِ عمل، اور اندازِ فکر کو ملحوظ رکھ کر متأخرین کی کاوشِ فکر سے ہم آہنگ ہونے پر طبیعت نہ تو راضی ہوتی ہے اور نہ حضرت خضر کی بشریت کا انکار کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتِ عام تو ہر شَے کو محیط ہے مگر جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی کسی رحمتِ خاص کا ذکر اٰتَیْنٰہُ رَحْمۃً مِّنْ عِنْدِنَا اور وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا کے الفاظ میں فرماتا ہے تو اُس کی رحمت کی نوعیت اور وسعت تقریباً اسی پیمانے کی محسوس ہوتی ہے جو بعض نبی یا رسول کے لیے وَاٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا کے الفاظ میں مستور پائی جاتی ہے۔ میری حدِ علم تک درج بالا تینوں آیات کسی فرشتے کے حق میں کبھی نازل نہیں ہوئیں ۔ اور جب کسی خوش نصیب انسان سے یہ آیات متعلق ہوتی ہیں تو ان کی تعبیر و تفسیر میں نبوت یا رسالت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اگر یہ تأویل قابلِ قبول ہو تو پھر حضرت خضرؑ صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ نبی یا رسول بھی ہوسکتے ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جب کسی فرد انسان کو اپنے کسی خاص علم و معرفت سے نوازنا چاہا ہے اور کوئی فرشتہ اس کا واسطہ قرار پایا ہے تو خود فرشتے ہی کو حاضرِ خدمت کیا گیا ہے، حاملِ وحی و الہام کو نقلِ مقام کی زحمت نہیں دی گئی اور نہ وہ خود ایسے فرشتے کی جستجو میں نکلا۔ واللّٰہ اعلم
مندرجہ بالا جو قرائن خدمتِ گرامی میں پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ہر قرینہ باعثِ خلش بنا ہوا ہے۔ اس کو دور کرنے کے لیے آپ ہی کو زحمتِ تفہیم دینے کے سوا چارہ نہیں ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جو دینی فکر و فہم اللّٰہ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ۔ دوسرے یہ کچھ مناسب بھی نہیں کہ قیاس و گمانِ غالب تو آپ کا ہو اور استفسار کسی دوسرے سے کیا جائے۔

کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا مطلب

قرآن کریم میں کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کا کیامطلب ہے؟ الہامی قانون کے ساتھ وہ کون سی ترازو اُتاری گئی ہے جس پر ہم اپنی سوسائٹی کے جواہر اور سنگ ریزوں کے وزن اور قیمت کا انداز ہ کرسکیں ۔مفسرین کا یہ کہنا کہ انسانیت کے اخلاقی اعتدال کا نام میزان ہے،درست نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو شخصی ضمیر کے اخلاقی احساسات سچائیوں کا صحیح وزن وقیمت متعین نہیں کرسکتے۔دوسرے یہ کہ میزان کے ساتھ کتاب اُتاری گئی ہے اور انسانی ضمیر کی میزان پیغمبروں اور کتابوں کے ساتھ نہیں اُتاری جاسکتی،وہ پہلے بھی تھی اور بعد کو بھی رہے گی۔

’’نُور‘‘ اور ’’کتابِ مُبین‘‘ کا مطلب

تفہیم القرآن کے مطالعے سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ المائدہ میں قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ:۵۱) کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب (جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘
اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں … اسی کے حاشیہ (نمبر۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے:
’’جو شخص اللّٰہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔‘‘ گویا آپ ’’نور‘‘ سے رسولِ کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتابِ مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں ۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللّٰہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتابِ مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہ ٖکی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعے (نہ کہ جن کے ذریعے) سے اللّٰہ تعالیٰ اُن لوگوں کو …‘‘
رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟— رسول یا قرآنِ مجید؟ —یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسولِ اکرمﷺ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتابِ مبین!‘‘ البتہ قرآنِ کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ النساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت۲۵۷، سورۂ الشوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ التغابن آیت ۸) ’’نُور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتابِ مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔
اب یہ سوال ہے، ’’نور‘‘ اور ’’کتابِ مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واو‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اَور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقینا ’’واو‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اَور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واو‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر :
الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ۝ ( الحجر:۱)
’’یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں ۔‘‘
کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’ الۗر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں ؟‘‘ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں )
اسی طرح سورۂ ’النمل‘ کی ابتدائی آیت:
طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ۝ (النمل:۱ )
’’طٰسٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔‘‘
طٰسٓ، ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں ‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید’ ’قرآن‘‘ اور شے ہو اور ’’کتابِ واضح‘‘ اور چیز! حالانکہ ’’قرآن‘‘ اور’ ’کتابِ واضح‘‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ ’’وائو‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں ) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیرِ نظر قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ میں بھی ’وائو‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔
آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہیے تھا:
تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے…
اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا: ’’… جو شخص اللّٰہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکرو عمل…‘‘
رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلُنَا … عَنْ کَثِیْرٍکے الفاظ میں ہوچکا ہے۔
متأخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اسی حصے کا ترجمہ: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ …‘‘ کیا ہے۔
انھی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآنِ مجید نہ صرف فی نفسہٖ نُور ہے بلکہ یہ دوسری اشیا کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے۔‘‘
امید ہے آپ ان گزارشات کی روشنی میں تفہیم القرآن کے اس حصے پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریقِ دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔