حجیت ِ حدیث کے اوّلین منکر: خوارج اور معتزلہ
سب سے پہلے حجیت ِ حدیث کا انکار کس نے کیا ہے،اس کی نوعیت وعلت کیاتھی؟
سب سے پہلے حجیت ِ حدیث کا انکار کس نے کیا ہے،اس کی نوعیت وعلت کیاتھی؟
تفہیم القرآن ،سورہ صٓ ح۳۶ صفحہ ۳۳۷ پر لکھا ہے کہ قوی سند کے باوجود حدیث مشتبہ ہوسکتی ہے اور ہے تو حدیث کی صحت کا معیار کیا رہا؟ صرف عقل سلیم؟ اگرچہ چند واقعات ہی سہی۔
میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ا قرار کرتا ہوں کہ اُصولاًصرف جماعت اسلامی ہی کا مسلک صحیح ہے۔ آپ کے نظریے کو قبول کرنا اور دوسروں میں پھیلانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میرا ایمان ہے کہ اس دور میں ایمان کو سلامتی کے ساتھ لے چلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جاسکتی ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی ہے۔ چنانچہ میں ان دنوں اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردینے پر تُل گیا تھا، مگر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک دو چیزیں ایسی نظر سے گزریں کہ مزید غور وتأمل کا فیصلہ کرنا پڑا۔میں نکتہ چیں اور معترض نہیں ہوں بلکہ حیران وسرگرداں مسافر کی حیثیت سے ،جس کو اپنی منزل مقصود کی محبت چین نہیں لینے دیتی، آپ سے اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔مشارالیہ مسائل کے متعلق میری گزارشات پر غور فرمائیں ۔
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:’’مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بِنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر وایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تووہ محض گمانِ صحت ہے،نہ کہ علم الیقین‘‘۔
یہ عقیدہ، جہاں تک بندے کا خیال ہے ،محدثین کے بالکل خلاف ہے۔کتبِ اُصول میں بصراحت موجود ہے کہ جس طرح قرآن مجید مسلمانوں کے لیے قانونی کتاب ہے،اسی طرح حدیث، اور جس طرح قرآن مجید کے احکام،چاہے اصولی ہوں چاہے فروعی،ہمارے لیے حجت ہیں ،اسی طرح احادیث بھی حجت ہیں ۔آپ کے طرز تحریر سے کسی حد تک حدیث سے بے توجہی معلوم ہوتی ہے۔
اس شبہے پر اپنے خیالات سے آگاہ فرمایئے۔
رسائل ومسائل ] سوال نمبر۳۳۳ [ مہدی علیہ السلام پر بحث فرماتے ہوئے جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ جو مسئلہ بھی دین میں ایسی نوعیت رکھتا ہو ،اس کا ثبوت لازماًقرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز ثابت ہوسکتی ہے تو گمان صحت نہ علم یقین۔ یہ قاعدۂ کلیہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کیا اس سے خطرے میں نہیں پڑ جاتے؟کیا تعداد رکعات وسجود اورصلاۃ کی ہیئت کذائیہ جو قرآن میں مصرح نہیں ، ان کے انکار سے کفر لازم نہ آئے گا؟
مسلمان کا چاروں فقہوں کو ماننا کس نص کے ماتحت ہے؟
اسناد حدیث اور تفقہِ مجتہدین میں سے کس کو کس پر فضیلت ہے؟
تفقہ مجتہد اور اسنادِ حدیث میں سے کس میں زیادہ ظنّیت ہے؟
خط وکتابت کے کئی مراحل طے ہوچکے ہیں ،لیکن ابھی تک کوئی اطمینا ن بخش صورت ظاہر نہ ہوئی۔ تاہم اس خط سے محض ایک سوال کے حل پر ساری بحث ختم ہو سکتی ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ حدیث و فقہ کا ہم پلّا ہونا، اسناد حدیث میں خامیوں کا پایا جانا وغیرہ مضامین آپ کی نظر میں بنیادی ہیں یا فروعی؟اگر اُصولی اور بنیادی ہیں جیسا کہ جماعت کے مستقل کتابی لٹریچر میں اس کی اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے تو پھر کسی مخالفت کا اندیشہ کیے بغیر جماعت اہلِ حدیث روایت کے باب میں جو غلو رکھتی ہے،اس کی اصلاح وتنقید کے لیے پورا زور قلم صرف کیجیے، جیسا کہ آپ نے لیگ اور کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے۔باقی رہا جماعت کے اندر اور باہر بحث کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ، تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ کیوں کہ اب سے پہلے بھی اخبار اہلِ حدیث امرتسر میں ’’تصدیق اہل حدیث‘‘ کے عنوان سے اس پر تنقید ہوچکی ہے اور اب بھی ایک مولوی صاحب… میں ’’ تفہیمات‘‘ کے اقتباسات(مسلکِ اعتدال) سنا سنا کر جماعت اسلامی کے ہم خیال اہل حدیث افرادمیں بد دلی پید ا کررہے ہیں ، اور پوری طرح فتنے کا سامان پیدا ہوگیا ہے اور جماعتی ترقی میں مزاحمت ہورہی ہے۔
لیکن اگر یہ مضامین فروعی اور ضمنی حیثیت رکھتے ہیں ، جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے، تو پھر تفہیمات جیسی اُصولی اور اہم کتاب اور مستقل لٹریچر کی صورت میں ان پر افہام وتفہیم کی ضرورت نہ تھی۔اس کے لیے صر ف ’’ترجمان‘‘ کے صفحات کافی تھے۔افسوس کہ جس چیز کو آپ فروعی تحریر فرماتے ہیں ،وہی جماعت کی توسیع کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔خود آپ ہی دستور جماعت کی دفعہ ۵، جز(د) میں تحریر فرماتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ان تمام بحثوں سے اپنی زندگی کو پا ک کرنا ضروری ہے جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غیر اہم کو اہم بنایا جارہا ہے اور اس کے لیے’’ تفہیمات‘‘ کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں ؟کیا اس سے بڑھ کر بنیادی اصلاح کا کام باقی ہی نہ رہا تھا۔
پھر یہاں دو جدا جدا چیزیں ہیں جنھیں مخلوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔فقہی جزئیات کی تعمیل میں کتاب وسنت کے ماتحت مختلف ہونا الگ معاملہ ہے اور اسے برداشت کیا جاسکتا ہے، یعنی اس بارے میں بنیادی اُمور کے اشتراک واتحاد کے لیے رواداری برتی جاسکتی ہے۔لیکن اُصولی طور پر روایتِ نبویﷺ اور درایتِ مجتہد کو مساویانہ حیثیت دے دینا ناقابلِ برداشت ہے، بلکہ بعض حالات میں یہ معاملہ انکارِ حدیث کا متراد ف ہوسکتا ہے،خود اکابر حنفیہ بھی اس کے قائل نہیں ، نیز امام ابوحنیفہؒ نے بھی اس قسم کے عقیدہ وخیال سے تبرّی اور بیزاری ظاہر کی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ اور ’’شامی‘‘)
اب اس کش مکش کو رفع کرنے کی یہی صورت ہے کہ ’’مسلک اعتدال‘‘ والا مضمون آئندہ تفہیمات کے ایڈیشن میں شائع نہ کیا جائے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک مہذب ومؤدّب تنقیدی مضمون کی اشاعت کا موقع مرحمت فرمایا جائے۔ یہ تنقید ہم دردانہ اور جماعتی ترقی کے لیے ہوگی، مخالفانہ اور معاندانہ نہ ہوگی۔ وَاللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ شَھِیْدٌ۔({ FR 2149 }) ’’ترجمان القرآن‘‘ کی قدیمی وسعت ظرفی اور عالی ہمتی سے اس قسم کی اُمید وابستہ رکھنا بے جا نہ ہوگا۔
محدث وفقیہ ایک ہی آدمی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
کوئی نظیر بتائیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے متن کو ملحوظ رکھ کر ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا اور قوی الاسناد کو چھوڑا ہو۔