اَحْسَنَ الْقَصَصِکا ترجمہ

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ( یوسف:۳ ) القَصَصِ یہاں مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ مصدر عربی کے معروف قاعدے کے مطابق نکرہ آنا چاہیے۔ اَحْسَنُ الْقَصَصِ، اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ کی نوعیت کی ترکیب ہے اور قَصَصٌ یہاں بمعنی مَقْصُوْصٌ استعمال ہوا ہے۔ لفظ کا یہ استعمال عربیت کے مطابق ہے۔ قَصَّ یَقُصُّ، مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہر جگہ مفعول ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے، بنا بریں صحیح ترجمہ ہوگا:’’ہم تمھیں بہترین سرگزشت سناتے ہیں ۔‘‘
لسان العرب میں أَیْ نُبَیِّنُ لَکَ اَحْسَنَ الْبَیَانِ({ FR 2095 }) کا فقرہ بھی اسی ترجمے کی تائید کرتا ہے۔ اس لیے کہ ’’بیان‘‘ کا لفظ یہاں اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے، مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔

لفظ تَسْوِیل کے مختلف معانی

تفہیم القرآن کے دو مقامات پیش نظر ہیں :
(۱) سورئہ یوسف کی دو آیتیں ۱۸ اور۸۳: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۝۰ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ (یوسف:۱۸)
آں جناب نے دونوں مقامات پر یہ ترجمہ کیا ہے:
’’یہ سن کر ان کے باپ نے کہا: بلکہ تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کرو ں گا۔‘‘
باپ نے یہ داستان سن کر کہا: ’’دراصل تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔‘‘
(۲) سورئہ طٰہٰ کی آیت ۹۶: وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ ( طٰہٰ:۹۶)
اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا ہے۔‘‘
یہاں بھی وہی سَوَّلَتْ ہے لیکن ترجمہ مختلف ہے۔ حالانکہ دونوں جگہ اس فعل کا فاعل انفس یا اس کا واحد نفس ہے۔ تسویل تسہیل کے معنوں میں تو نہیں آتا۔آں جناب کی تصریح کا خواست گار اور منتظر ہوں ۔

ثُمَّ لْیَقْطَعْ کا ترجمہ

لِیَقْطَعْ، یہاں عزم و جزم کے ساتھ کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔
سورئہ النمل میں ہے قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ۝۰ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰى تَشْہَدُوْنِ (النمل:۳۲)
َْ ’’یعنی میں کسی معاملے کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک آپ لوگ موجود ہوکر مشورہ نہ دیں ۔‘‘ لہٰذا پورا جملہ یہ ہوگا: اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچے پھر اپنے معاملے کا فیصلہ کرلے، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر اس کے غم کو دور کرسکتی ہے۔

مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سٰمِراً تَہْجُرُوْنَ کا ترجمہ

استکبار کے بعد ’’ب‘‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ لفظ یہاں استہزا کے مفہوم پر متضمن ہے۔ عربی میں جب ’’صلہ‘‘ لفظ کے ساتھ مناسبت نہ رکھتا ہو تو مناسب لفظ محذوف ہوتا ہے، جیسے فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ صَبَرَ یَصْبِرُ کے ساتھ ’’ل‘‘ کا صلہ مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے پورا جملہ ہوگا فَاصْبِرْ وَانْتَظِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ، خَلَا کے ساتھ الٰی مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے تقدیرِ جملہ ہوگی: اِذَا خَلَوا وَذَھَبُوْا اِلٰی شَیاطِیْنِھِمْ۔ لفظ سٰمِراً، تَھْجُرُوْنَ کا مفعول بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کو بِہٖ کی ضمیر مجرور کا حال مانیں جب بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
تَھْجُرُوْنَ (تم چھوڑتے ہو) اپنے معروف معنی میں استعمال ہوا ہے۔
’’گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو۔‘‘

سورۃ الزخرف، آیت ۶۱ وَاتَّبِعُوْنِ کا قائل

’’سورۃ الزخرف آیت۶۱ کسی طرح بھی اللّٰہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے، اس لیے کہ اتّباع کا لفظ انبیا؊ کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت کا صحیح ترجمہ ہوگا :’’اے نبی ان سے کہو وہ (حضرت عیسیٰؑ) تو قیامت کی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘

سُوْرَۃُ الزُّخْرُف آیات ۸۵ تا۸۹ وَقِیْلِہٖ کا عطف

سورۃ الزُّخرُف ہی میں وَقِیْلِہٖ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے۔ آیات کا مفہوم یہ ہے:
اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنھیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلّایہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ ان سے پوچھ دیکھو کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو یہ خود کہیں گے: اللّٰہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں ؟ ہاں ، جو شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمھیں ، عن قریب یہ جان لیں گے۔

سورة الشوریٰ ،آیت ۲۳کی تشریح

تفہیم القرآن ،سورئہ الشوریٰ آیت ۲۳ ح۴۱ صفحہ ۵۰۱ آپ نے اپنی راے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقے کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔

دین و شریعت کی تشریح

تفہیم القرآن جلد چہارم سورۃ الشوریٰ کے حاشیہ۲۰ صفحہ ۴۸۸-۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:
’’بعض لوگوں نے…یہ راے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں ، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو ماننا اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی راے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک راے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح؈ کی امت کو خراب کر دیا۔‘‘
بعدازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رسالہ دینیات کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص راے میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

انسان کے اندر مادۂ تخلیق کا ماخذ

میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورئہ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵ تا۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اس کے حاشیے میں آپ کی تشریح میں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ جہاں تک عملی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ مادہ فوطے (testicle) میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار میں کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالیinguinal canalمیں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ غدود کا نام prostate ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو میں سمجھ نہ سکا۔ البتہ اس کا کنٹرول ایک ایسے نروس سسٹم سے ہوتا ہے جو کہ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان جال کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک خاص حد تک۔ اس کا کنٹرول ایک اور غدود جوکہ دماغ میں ہوتا ہے، اس کی رطوبت سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں اخراج کا ہے (جو کہ ایک نالی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے)۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے (جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ) کہ آپ سائنٹی فِک علم پر یقین رکھتے ہیں ۔

نفس کی تعریف

مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بے حد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعاے خیر کرتا رہتا ہوں ۔ میں آج کل امریکا میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فنِ علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔راہ نمائی کیجیے کہ اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے؟