نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی تعریفیں
نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ان اصطلاحات پر پوری راہ نمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔
نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ان اصطلاحات پر پوری راہ نمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔
قرآنِ مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا({ FR 2275 }) ( الشمس :۷-۸ ) یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولاجیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے؟
نفس کو دبانے اور اس کا تزکیہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
متقی کو رزق کی فراہمی کا بہت جگہ ذکر آیا ہے مگر کئی ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو باوجود نہایت متقی ہونے کے نہایت تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان داری سے رزق کمانے والوں کی حالت تو بہت کمزور ہے مگر بد دیانت لوگوں کی آمدنی وافر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر قلبی اطمینان کو بہت ضعف پہنچتا ہے اور ایمان داری کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ عموماً لوگ غلط طریقے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں اور شریعت کی پابندی کرنے والے لوگ جو ایسے غلط طریقوں سے بچتے ہیں ، کامیاب نہیں ہونے پاتے۔ امید ہے آپ ان اُلجھنوں کو دور فرمائیں گے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ایمان ہے کہ قرآن شریف ہمیں ہر شعبۂ زندگی میں راہ نمائی عطا فرماتا ہے تو سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی اور نئے نئے سائنسی راز جاننے کے لیے بھی اس میں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان اس میدان میں ترقی کرکے انسانی فلاح و بہبود اور اپنے دفاع میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ قرآن شریف سے اپنے فارغ وقت میں میں نے چند ایسے راز جاننے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں نے ایک ادنیٰ سا اٹامک انرجی کا انجینئر اور سائنس دان ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے معنی اپنے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہی نظریے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس کے صحیح مفہوم سمجھنے اور وضاحت کے لیے براہ کرم ان آیات کا مطلب مجھے سمجھا دیں تاکہ میں اپنی تحقیق سائنس کے اس شعبے میں صحیح طرح سے جاری رکھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز ایجاد کرسکوں ۔
سورہ آیات
(۱) ھود ۹۴ -۹۵
(۲) الحجر ۸۳ -۸۴
(۳) المؤمنون ۴۱
(۴) یٰسٓ ۲۸-۲۹
(۵) صٓ ۱۴-۱۵
(۶) الحاقہ ۱،۲،۳،۴،۵،۱۳،۱۴،۱۵
(۷) القارعہ ۱،۲،۳،۴،۵
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو پھر بعد میں بتا دوں گا۔ ان آیات کی مدد سے ہم ایٹم کی شعاعوں ، ایٹم کی حیثیت، زمین کی گردش، آواز وغیرہ کے آپس کےinteractionکے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں ۔
آپ نے سورۂ البقرہ کے حاشیہ نمبر۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں ۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں ، یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیو ں نہیں کرتے؟
تفہیم القرآن کا مطالعہ کررہا ہوں ۔ الحمد ﷲ بہت اچھے طریقے سے مضامین قرآن مجید دل نشین ہوجاتے ہیں ۔لیکن بعض مواقع پر کچھ اشکال محسوس ہوئے ہیں ۔ ان کو پیش خدمت کیے دیتا ہوں ، براہِ کرم ان کاحل تجویزفرما کر مرحمت فرمائیں ۔ یہ چند معروضات اس لیے ارسال کررہا ہوں کہ میں نے آپ کی تصنیفات میں سے رسائل ومسائل حصہ اوّل ودوم اور تفہیمات حصہ اوّل و دوم کو بہ نظر غائر دیکھا ہے۔ ان میں آپ نے جن آیات اور احادیث پر قلم اٹھایا ہے،ان کے مفاہیم کو دلائل سے واضح فرمایا ہے۔بنا بریں میں امید کرتا ہوں کہ میری پیش کی ہوئی گزارشات کو بھی دلائل سے بیان فرما کر میری تشفی فرمائیں گے۔
فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ({ FR 2250 }) (یونس:۲۹) کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’یعنی وہ تمام فرشتے اور وہ تمام جن وارواح، اسلاف واجداد، انبیا (؊) اولیا، شہدا وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انھیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقوق تھے،وہا ں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لارہے ہو۔ تمھاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار او ر فریاد، کوئی نذرونیاز، کوئی چڑھاوے کی چیز، کوئی تعریف ومدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی وآستانہ بوسی ودرگاہگردی ہم تک نہیں پہنچی۔‘‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جتنے لوگ مرچکے ہیں ،خواہ وہ انبیا؊ ہوں یا اولیاے کرام ہوں ، وغیرہ، ان کے مزاروں اور قبروں پر جاکر لوگ چیخیں چلائیں اور حاجات کے لیے پکاریں ،وہ اس سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور کچھ نہیں سنتے، اور اس مضمون پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں ۔ مثلاً سورۂ النحل فَاَلْقَوْا اِلَيْہِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ ({ FR 2251 }) (النحل:۸۶) میں بھی آپ نے تصریح فرمائی ہے۔ اور اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی({ FR 2252 }) (النمل:۸۰) وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ ({ FR 2253 }) (فاطر:۲۲) اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاءَكُمْ ({ FR 2254 }) (فاطر:۱۴) وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَہٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ({ FR 2255 }) (الاحقاف:۵) لیکن جب حدیث کی طرف نظر پڑتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زیارت کرنے والے کو پہچان لیتے ہیں اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ۔ یہاں پہنچ کر ذہن قلق واضطراب کا شکار ہوجاتا ہے اور کوئی صحیح مطلب برآری نہیں کرسکتا اور نہ کوئی صحیح تأویل سمجھ میں آتی ہے ۔ لہٰذا اس مضمون کی چند حدیثیں پیش خدمت کرتا ہوں ،براہِ کرم ان حدیثوں کا مطلب بیان فرما کر عقدہ کشائی فرما ویں ۔
(۱)مقتولین بدر سے حضور ﷺکا اَلَیْسَ قَدْ وَ جَدتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًا({ FR 2087 }) فرمانا اور حضرت عمر ؓ کا یہ کہنا : ’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا ({ FR 1944 }) اور حضورﷺکا ارشاد فرمانا: مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْھُمْ صاف دلالت کرتاہے کہ مردے سنتے ہیں ۔ اس حدیث کی تأویل جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے،اس کی رو سے حضرت عمرؓ کے سوال اور حضورؐ کے جواب میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔
(۲) مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلَّا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ({ FR 1945 })
(۳) فی الصحیحین من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ({ FR 1946 })
دوسری چیز جو قابل توضیح ہے وہ یہ ہے کہ سورۂ النحل کی اس آیت وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ۰ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۰ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۱-۲۰)کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ’’یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں ۔‘‘ اور کچھ آگے چل کر تحریرفرماتے ہیں کہ ’’لامحالہ اس آیت میں وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد انبیا،اولیا،شہدا، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں …الخ۔‘‘ اب عرض یہ ہے کہ سورۂ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو موتیٰ کہنے کی نہی فرمائی ہے۔ ارشاد موجود ہے: وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ:۱۵۴) اسی سورت میں اﷲ تعالیٰ نے شہدا کو اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کیوں کہا؟ بظاہر آپ کی تشریح کے لحاظ سے ان دونوں آیتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے۔
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کے عموم میں آپ نے انبیا ؊ کو بھی داخل کیا ہے، حالاں کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا؊ قبروں میں جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں ، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ،سلام سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔
(۱)اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیائٌ فِیْ قُبُوْرِ ھِمْ یُصَلُّونَ۔({ FR 1947 })
(۲) مَرْرْتُ بِمُوْسٰی لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِہٖ وَھُوَقَائِمٌ یُصَلّیِ فِیْ قَبَرہٖ۔({ FR 1948 })
(۳) مَنْ صلّٰی عَلیَّ عَنْدَ قَبْرِیْ سَمِعُتہُ وَمَنْ صَلّٰی عَلیَّ نَائِیًا اُبْلٍغْتُہ۔({ FR 1949 })
حتیٰ کہ بعض بزرگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعد از وفات حضورﷺ[حضور نہیں بلکہ حضرت زید بن خارجہ انصاریؓ] کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور جنازہ میں کلام فرمایا کہ بئرأریس وما بئر اریس ؟({ FR 2256 }) سوف تعلمون[یہ اضافہ ہے] اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض اصحاب نے سنا۔ یہ تو وفات کے فوری بعد کی بات تھی کہ روح نے جسم کوکلیتاً نہیں چھوڑا تھا لیکن بعد میں تاحشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا۔ خیر بزرگوں کے اقوال کو چھوڑیے۔ مذکورہ بالا حدیثیں آپ کی تفسیر کے خلاف پڑتی ہیں ، براہِ کرم ان کی تشریح کیجیے۔
سورۂ العنکبوت میں آیت ۵۰ کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔میرے پاس جو قرآن پاک کی تفسیر ہے ،اس میں بھی ان کی وضاحت نہیں ملی۔لہٰذا آپ کی دینی بصیرت سے اُمید قوی ہے کہ آپ ان کی تفصیل سے آگاہ فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے۔
سورۂ العنکبوت آیت ۵۰ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے:
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۰ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۰ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
’’اور کہتے ہیں ( منکر) کہ کیوں نہ اتریں اس پر کوئی نشانیاں اس کے ربّ سے۔ (آپ) کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو ہیں اختیارمیں اﷲ کے اور میں تو یہی سنا دینے والا ہوں کھول کر۔‘‘
مندرجہ بالا آیت قرآنی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کو معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے۔ معجزات حضورﷺ کو عطا نہ کرنے کی جو وجوہات قرآن پاک میں درج ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں ۔مگر کیا اس سے حضور رسالت مآبؐ کی شانِ مبارک میں فرق نہیں آتا کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو نشانیاں اور معجزات اﷲ تعالیٰ نے عطافرمائے کہ جن کی شہادت قرآن پاک خود دے رہا ہے اور حضورﷺ کو اس سے بالکل جواب دے دیا؟
سیرت نبوی میں حضور ﷺ کے بہت سے معجزات درج ہیں ۔مثلاًمعجزۂ شق القمر، تھوڑے سے تھوڑے کھانے سے جماعت کثیر کا سیر ہو جانا، کنکریوں کا کلمۂ شہادت پڑھنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بظاہر قرآنی شہادت کی بِنا پر غلط معلوم ہورہے ہیں ۔
قرآن کریم میں ’’حق ‘‘کی اصطلاح کن کن معنی میں استعمال ہوئی ہے؟اور وہ معنی ان مختلف آیات پر کس طرح چسپاں کیے جاسکتے ہیں جو تخلیق کائنات بالحق، کتاب بالحق، رسالت بالحق اورلِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ({ FR 2257 }) (الانفال:۸) کے تحت حق کی ہم آہنگی، تسلسل اور ارتقا پر روشنی ڈالتے ہیں ؟
اسی طرح ایک اور الجھن بھی ہے، امید ہے کہ آپ اسے بھی حل فرما دیں گے۔ کیا دل اور عقل ایک ہی چیز ہیں یا ان دونوں کے وجود الگ الگ ہیں ؟