فرعون موسیٰ ایک تھا یا دو؟

میں تفسیر قرآن کے سلسلے میں اپنا ایک شبہہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ ترجمان جنوری۱۹۶۱ء میں سورۂ القصص کی تفسیر کرتے ہوئے جناب نے میرے خیال میں اسلاف مفسرین کے خلاف حضرت موسیٰ ؑ کے بالمقابل ایک کے بجاے دو فرعون قرار دیے ہیں ، حالاں کہ قرآن کے متعلقہ مقامات کا مطالعہ کرنے سے فرعون سے مراد ایک ہی شخصیت معلوم ہوتی ہے۔ جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰؑ بھیجے گئے،یہ وہی فرعون ہے جو انکارِ دعوت کے بعد غرق ہوا۔اسی طرح فرعون کی بیوی کا حضرت موسیٰ ؑکو پرورش کرنا بھی قرآن میں مذکور ہے، اور پھر انھی خاتون کے اسلام لانے پر ان کا فرعون کے ہاتھوں ستایا جانا بھی معلوم ہوتاہے۔ کیوں کہ انھوں نے فرعون سے نجات پانے کے لیے دُعا مانگی تھی۔میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کس بِنا پر غرق ہونے والے فرعون کو اس فرعون سے جدا سمجھا ہے جس کے گھر میں حضرت موسیٰ ؑپالے گئے تھے؟

غرق ہونے والے فرعون کی لاش (سورہ یونس، آیت ۹۲)

اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو از راہِ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ ({ FR 2258 }) (یونس:۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو اُلجھنیں دور فرمائیے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرئہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش۱۹۰۰ء میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔
اگر آپ کو باقی شہادتوں کا علم ہو، یا کوئی ایسی کتاب معلوم ہو جس میں ان شواہد کا ذکر ہو تو ازراہِ کرم مطلع فرمائیں ۔
آپ نے فرعون کے جسم پر سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے۔ کیا اس کی ممی حنوط شدہ نہیں تھی؟ اگر تھی تو سمندری نمک کیسے باقی رہ گیا تھا؟
کیا نعش کسی ہرم سے ملی تھی یا معمولی قبر سے؟ اور یہ مقام کہاں ہے؟ قاہرہ سے کس طرف ہے اور کتنا دور ہے؟

حضرت خَضِر؈ کی بشریّت کا مسئلہ

تفہیم القرآن جلد سوم سورۂ الکہف،زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر؈ کا واقعہ اورآپ کا حاشیہ نمبر۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں ۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے اُمور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں ۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکرائو‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خَضِر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں ان کو فرشتے انجام نہیں دیا کرتے۔ رضاے الٰہی کسی انسان کے نفع و ضرر کے پیشِ نظر، کسی فرشتے یا کارکنانِ قضا و قدر کو، کسی خاص مشن پر اُسی وقت مامور فرماتی ہے جب انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے اور اس کی ساری توانائی اور اس کے تمام ذرائع و وسائل جواب دے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی کارکردگی کے طور طریقے بھی انسانی طور طریقوں سے بالکل مختلف اور ممتاز قسم کی ندرت بھی رکھتے ہیں ۔
کشتی کا تختہ توڑنے، لڑکے کو ہلاک کرنے اور گرتی دیوار کو سنبھالا دینے کے لیے کسی فرشتے کی توانائی درکار نہیں ہوتی۔ یہ معمولی انسانی کام ہیں اور ان میں وہ امتیازی نُدرت بھی نہیں پائی جاتی جو غیبی کارکردگی کی طرف ذہن کو منتقل کرسکے۔ اس لیے قرینہ یہی کہتا ہے کہ حضرتِ خضرؑ بشر تھے، فرشتہ نہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرؑ دونوں نے اہل قریہ سے غذا کی خواہش کی تھی جیسا کہ جمع کے صیغے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں بھوکے تھے، دونوں کو احتیاجِ غذا تھی۔ اگر حضرت خضرؑ واقعی فرشتہ ہوتے تو وہ احتیاجِ غذا سے یقیناً مستغنی ہوتے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ نے جب تلا ہوا بچھڑا فرشتوں کی ضیافت میں پیش کیا تو وہ اس وجہ سے دست کش رہے کہ احتیاجِ غذا سے فطرتاً مستغنی تھے۔ اس سے بھی یہی قرینہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضرؑ بشر تھے۔ فرشتہ نہ تھے۔
بے قصور لڑکے کی ہلاکت صرف حضرت موسیٰعلیہ السلام جیسے حاملِ شریعت ہی کے لیے باعثِ حیرت اور موجبِ اذیت نہ تھی بلکہ ہر سلیم الفطرت انسان کی نظر میں بھی اس کی قباحت واضح تھی۔ مگر حکمِ الٰہی مل جانے کے بعد بجز تعمیلِ حکم کے کوئی گنجایش ہی کہاں تھی۔ یا اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اپنی چہیتی اولاد کو حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی اُس شریعت کا سہارا لے کر کوئی عذرِ شرعی پیش کرنے پر مائل تک نہ ہوسکے جس کی رُو سے ناکردہ گناہ اولاد کا قتل، گناہِ عظیم ہے۔
دونوں بزرگوں نے تعمیلِ حکمِ الٰہی کی پیش رفت میں جس جرأت مندانہ انداز میں احتسابِ شریعت سے اجتناب فرمایا اس سے تو بظاہر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معمولاً احکامِ شریعت کی پابندی لازم ہے، مگر جب کسی شخص کو کسی امرِ خاص میں بطورِ خاص براہِ راست حکمِ الٰہی مل جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ احکامِ شریعت سے صرفِ نظر کرسکے۔
ان بزرگانِ محترم کے طرزِ عمل، اور اندازِ فکر کو ملحوظ رکھ کر متأخرین کی کاوشِ فکر سے ہم آہنگ ہونے پر طبیعت نہ تو راضی ہوتی ہے اور نہ حضرت خضر کی بشریت کا انکار کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتِ عام تو ہر شَے کو محیط ہے مگر جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی کسی رحمتِ خاص کا ذکر اٰتَیْنٰہُ رَحْمۃً مِّنْ عِنْدِنَا اور وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا کے الفاظ میں فرماتا ہے تو اُس کی رحمت کی نوعیت اور وسعت تقریباً اسی پیمانے کی محسوس ہوتی ہے جو بعض نبی یا رسول کے لیے وَاٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا کے الفاظ میں مستور پائی جاتی ہے۔ میری حدِ علم تک درج بالا تینوں آیات کسی فرشتے کے حق میں کبھی نازل نہیں ہوئیں ۔ اور جب کسی خوش نصیب انسان سے یہ آیات متعلق ہوتی ہیں تو ان کی تعبیر و تفسیر میں نبوت یا رسالت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اگر یہ تأویل قابلِ قبول ہو تو پھر حضرت خضرؑ صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ نبی یا رسول بھی ہوسکتے ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جب کسی فرد انسان کو اپنے کسی خاص علم و معرفت سے نوازنا چاہا ہے اور کوئی فرشتہ اس کا واسطہ قرار پایا ہے تو خود فرشتے ہی کو حاضرِ خدمت کیا گیا ہے، حاملِ وحی و الہام کو نقلِ مقام کی زحمت نہیں دی گئی اور نہ وہ خود ایسے فرشتے کی جستجو میں نکلا۔ واللّٰہ اعلم
مندرجہ بالا جو قرائن خدمتِ گرامی میں پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ہر قرینہ باعثِ خلش بنا ہوا ہے۔ اس کو دور کرنے کے لیے آپ ہی کو زحمتِ تفہیم دینے کے سوا چارہ نہیں ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جو دینی فکر و فہم اللّٰہ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ۔ دوسرے یہ کچھ مناسب بھی نہیں کہ قیاس و گمانِ غالب تو آپ کا ہو اور استفسار کسی دوسرے سے کیا جائے۔

کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا مطلب

قرآن کریم میں کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کا کیامطلب ہے؟ الہامی قانون کے ساتھ وہ کون سی ترازو اُتاری گئی ہے جس پر ہم اپنی سوسائٹی کے جواہر اور سنگ ریزوں کے وزن اور قیمت کا انداز ہ کرسکیں ۔مفسرین کا یہ کہنا کہ انسانیت کے اخلاقی اعتدال کا نام میزان ہے،درست نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو شخصی ضمیر کے اخلاقی احساسات سچائیوں کا صحیح وزن وقیمت متعین نہیں کرسکتے۔دوسرے یہ کہ میزان کے ساتھ کتاب اُتاری گئی ہے اور انسانی ضمیر کی میزان پیغمبروں اور کتابوں کے ساتھ نہیں اُتاری جاسکتی،وہ پہلے بھی تھی اور بعد کو بھی رہے گی۔

’’نُور‘‘ اور ’’کتابِ مُبین‘‘ کا مطلب

تفہیم القرآن کے مطالعے سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ المائدہ میں قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ:۵۱) کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب (جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘
اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں … اسی کے حاشیہ (نمبر۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے:
’’جو شخص اللّٰہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔‘‘ گویا آپ ’’نور‘‘ سے رسولِ کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتابِ مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں ۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللّٰہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتابِ مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہ ٖکی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعے (نہ کہ جن کے ذریعے) سے اللّٰہ تعالیٰ اُن لوگوں کو …‘‘
رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟— رسول یا قرآنِ مجید؟ —یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسولِ اکرمﷺ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتابِ مبین!‘‘ البتہ قرآنِ کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ النساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت۲۵۷، سورۂ الشوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ التغابن آیت ۸) ’’نُور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتابِ مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔
اب یہ سوال ہے، ’’نور‘‘ اور ’’کتابِ مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واو‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اَور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقینا ’’واو‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اَور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واو‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر :
الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ۝ ( الحجر:۱)
’’یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں ۔‘‘
کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’ الۗر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں ؟‘‘ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں )
اسی طرح سورۂ ’النمل‘ کی ابتدائی آیت:
طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ۝ (النمل:۱ )
’’طٰسٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔‘‘
طٰسٓ، ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں ‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید’ ’قرآن‘‘ اور شے ہو اور ’’کتابِ واضح‘‘ اور چیز! حالانکہ ’’قرآن‘‘ اور’ ’کتابِ واضح‘‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ ’’وائو‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں ) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیرِ نظر قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ میں بھی ’وائو‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔
آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہیے تھا:
تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے…
اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا: ’’… جو شخص اللّٰہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکرو عمل…‘‘
رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلُنَا … عَنْ کَثِیْرٍکے الفاظ میں ہوچکا ہے۔
متأخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اسی حصے کا ترجمہ: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ …‘‘ کیا ہے۔
انھی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآنِ مجید نہ صرف فی نفسہٖ نُور ہے بلکہ یہ دوسری اشیا کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے۔‘‘
امید ہے آپ ان گزارشات کی روشنی میں تفہیم القرآن کے اس حصے پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریقِ دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔

نباتات و حشرات کی مَوت و حیات

سورۃ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے: ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللّٰہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مُردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسبِ ذیل ہے:
’’پچھلی برسات کے بعد جو نباتات مرچکی تھی، یا بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا (یعنی مرچکے تھے) یکا یک پھر اُسی شان سے نمودار ہوگئے (یعنی دوبارہ زندہ ہوگئے) پھر بھی تمھیں نبیؐ کی زبان سے یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللّٰہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔‘‘
زندگی بعد الموت کی یہ مثال بالکل خلافِ حقیقت و مشاہدہ ہے۔ کوئی پیڑیا پودا مکمل طبعی موت کے بعد زندہ نہیں ہوتا، چاہے کتنے ہی برساتیں گزر جائیں ۔ صرف وہ جڑیں پُھوٹتی ہیں جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی رہتی ہے۔ دوم کیڑے مکوڑے گرمیوں میں یقیناً مر جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عرصۂ دراز تک بے حس و حرکت (hybranted)پڑے رہتے ہیں یا انڈے، لاروا، پیوپاکی صورت میں زمین، لکڑیوں ، دروازوں ، سوراخوں ، پانی وغیرہ کسی جگہ پر موجود رہتے ہیں اور مناسب درجۂ حرارت و رطوبت اور موافق موسم کے آتے ہی اپنے اپنے خول سے نکل آتے ہیں ۔ مکھی، مچھر، پروانے، کھٹمل اور زمین کے تمام حشرات الارض کے مختلف ادوارِ زندگی ہوتے ہیں ۔ اور دنیا کے ہر خطے کی آب و ہوا کے مطابق وہ درجات مختلف اوقات میں پایۂ تکمیل پاتے ہیں ۔ لہٰذا یہ مثال کہ نباتات یا حشرات الارض موت کے بعد دنیا ہی میں دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں ، قطعی خلافِ حقیقت ہے۔
اس تفسیر کو قلم بند کرنے سے پہلے اگر آپ علمِ نباتات (Botany) اور علم الحشرات (Entomology) کے کسی عالم یا متعلم سے مشورہ کر لیتے یا ان کے متعلق کوئی کتاب ہی مطالعہ فرما لیتے تو ایسے اہم موضوع پر اتنی عام غلطی نہ سرزد ہوتی۔ ایسی پر مغز اور عظیم تفسیر میں ایسی خلافِ سائنس یا خلافِ حقیقت و مشاہدہ بات پڑھ کر وہ لوگ جن کو آپ سے عقیدت نہیں ہے یا جو آپ کی عظمت کے قائل اور علمیت سے واقف نہیں ہیں بقیہ مضامین کو بھی اس پیمانے پر ناپیں گے۔ مَیں یہ گزارشات اپنے محدود علم اور ایک ماہرِ حشرات الارض سے مشورہ کرنے کے بعد لکھ رہا ہوں ۔

لاٹھی سے اژدہا بننے کا معجزہ

تفہیم القرآن، سورۃ الاعراف حاشیہ۸۷ کی مندرجہ ذیل سطر قابلِ توجہ ہے:
’’خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔‘‘ مندرجہ بالا جملے میں عجیب یا غیر عجیب کی بحث سے قطع نظر، میری گزارش صرف یہ ہے کہ جس انڈے سے کوئی جاندار شے پیدا ہوتی ہے مثلاً اژدہا، مچھلی، چھپکلی، مرغی، کبوتر وغیرہ اس انڈے کے اندر مادہ، بے جان نہیں ہوتا، بلکہ قطعی جاندار ہوتا ہے۔ یعنی اس انڈے میں نر و مادہ کے تولید کا مجموعہ (ovum+sperm)موجود ہوتا ہے ۔ بے جان مادے والا انڈا وہ ہوتا ہے جو مادہ، بغیر نر کے دیتی ہے اور اس کو عرفِ عام میں خاکی انڈا کہتے ہیں اور جس میں سے کسی طرح بھی بچہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کے باعث تو آپ کی دلیل مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی قوتِ معجزہ کو غلط سائنٹی فِک استدلال سے ثابت کرنا اور بھی عجیب ہوجاتا ہے۔

قومِ ثمود کے مساکن

ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ راے درج کی ہے:
قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انھوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بناے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی، جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں ۔ (ص۳، کتاب مذکور)
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں خاکسار کے شرح صدر کے لیے اپنی تحقیق سے آگاہی بخشیں گے۔

سیلِ عَرِم کا زمانہ

(۱)تفہیم القرآن میں آپ نے سیلِ عَرِم کا جو زمانہ۴۵۰ء متعین فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں (یعنی ان کا ماخذ کیا ہے؟)
(۲)ارض القرآن کی اشاعت سے پہلے بھی۴۵۰ء والی روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ارض القرآن کی اشاعت کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیل عرم۴۵۰ء میں آیا۔ نکلسن کی تاریخ ادب العرب میں بھی سیل عرم کا زمانہ۴۴۷ء یا۴۵۰ء لکھا ہے، لیکن یہ روایت بوجوہ محل نظر ہے۔
(۳) قرآن حکیم کی مختلف تفاسیر (بشمول تفہیم القرآن) کا بغور مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس سیل عرم کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس کا تعلق سبا کے طبقۂ ثانیہ سے ہے نہ کہ سباے حمیر سے، جن کو قوم تُبَّع کہا گیا ہے۔ اسی طرح ’’تفرُّقِ سبا‘‘ کا واقعہ ولادت مسیح سے پہلے ہوا نہ کہ بعد میں ۔
(۴) سیل عرم کے نتیجے میں سدّ مارب ٹوٹ گیا اور سبا کے باغ اجڑ گئے۔ اس کے معاًبعد (تجارتی راستوں پر دوسری اقوام کے غلبے کی وجہ سے) ان کے قبائل کا شیرازہ بکھر گیا۔
(۵)اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء تسلیم کیا جائے تو ’’تفرق سبا‘‘ بھی اس کے بعد ہونا چاہیے۔ لیکن عرب (اور بالخصوص مدینہ منورہ) کی مختلف تواریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سبا کے مختلف قبائل ۴۵۰ء سے کہیں پہلے سارے عرب میں منتشر ہوگئے تھے۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ ان کا قبیلہ از دیا اسد جو یثرب میں آکر آباد ہوگیا تھا اس پر یہودی سردار فیطون (یا فطیون) نے بے پناہ مظالم ڈھاے۔ غسانی سردار ابوجبیلہ نے ان مظالم کا انتقام لیا۔ اس واقعہ کے بعد مشہور تبع ابوکرب اسعد یا حسان بن کلیکرب کا ورود یثرب میں ہوا۔ (ابوکرب اسعد کا زمانۂ حکومت۴۰۰ء تا۴۲۵ء ہے اور حسان کا۴۲۵ء تا۴۵۵ء) عرب مؤرخین نے تبابعہ کے حالات غلط یا صحیح تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں لکھا کہ سیل عرم تبابعہ کے عہد میں آیا۔ اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قبائل سبا کا شیرازہ۴۵۰ء کے بعد منتشر ہوا۔ حالانکہ تاریخ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سبا کے تجارتی راستوں پر بہت پہلے دوسروں کا غلبہ ہوگیا تھا اور یہی بات ان کے انتشار کا باعث ہوئی تھی۔ یہ بالکل دوسری بات ہے کہ ان منتشر قبائل میں سے بعض نے پھر عروج حاصل کرلیا۔ یہ بھی درست ہے کہ سیل عرم کا ’’تفرق قبائل‘‘ سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ لیکن سورئہ سبا میں جس سیل عرم کا ذکر ہے اس کے سیاق و سباق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق سبا کے طبقہ ثانیہ سے ہے جس کا دورِ عروج۱۱۵ ق م میں ختم ہوگیا۔ سدمارب بلاشبہہ اس کے بعد بھی کام دیتا رہا (اس کی مرمت کس نے کرائی، تاریخ اس کے بارے میں خاموش ہے) لیکن وہ باغ جنھیں ’’جنتین‘‘ کہا گیا ہے پھر معرض وجود میں نہ آسکے۔ سد مارب تو سباے حمیر کے عہد میں اور ان کے بعد بھی کام دیتا رہا۔ ۴۵۳ء میں یہ ایک بار پھر ٹوٹا تو ابرہہ نے اس کی مرمت کروائی۔ آخری بار یہ کب ٹوٹا، اس کے متعلق بھی مختلف روایتیں ہیں ۔
(۶) تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سبا کے طبقہ اولیٰ(اور ثانیہ) کا مسکن شہر ’’مارب‘‘ (سبا) تھا اور ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق اسی بند سے ہے جو مارب کے متصل تعمیر کیا گیا تھا۔ سباے حمیر کا مسکن مارب نہیں تھا۔ اس لیے قرآن کریم کے بیان کردہ ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق یقیناً سباے حِمیَر کے زمانے سے نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ حمیر نے اپنی حکومت کو مارب تک وسعت دے لی تھی لیکن مارب کو حمیر کا مسکن نہیں کہا جا سکتا اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے سبا کے مسکن میں بند توڑ سیلاب بھیجا۔ (مسکن سے مراد مرکزی شہر یا سبا کی قوت و شوکت کا مرکز ہے)

قرآنی احکام کے جزئیات میں رد ّو بدل

میں ایک جواں سال طالب علم ہوں ۔۱۹۷۰ء سے جماعت اسلامی کا ذہنی ہم درد اور آپ کا ایک عقیدت مند۔ لیکن آپ کے ساتھ عقیدت ہو یا کسی کے ساتھ دشمنی، میرے پیش نظر ہمیشہ خاتم النبیین (ﷺ) کی یہ حدیث شریف رہتی ہے کہ محبت اور نفرت کا معیار صرف قرآن پاک اور سنت صادقہ پر رکھو۔ میں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خداے واحد کی بارگاہ میں بھی یہ عرض کرسکتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اسلام کے سمجھنے، شعوری طور پر اس پر عمل کرنے اور اسلام کی خدمت کرنے اور اقامت دین کے مقدس فریضے کو انجام دینے کا جذبہ پیدا کیا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد میں اس مسئلے کی طرف آتا ہوں جس نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ یہ چیز واقعتاً میرے دل میں کھٹکتی ہے۔ یہ آپ کی وہ تحریر ہے جو آپ کی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں مندرج ہے۔ میرے پاس اس کتاب کا مارچ ۱۹۷۰ء کا اڈیشن ہے۔ ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ ’’رسول اللّٰہ نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں ، کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسی قسم کا ردّ و بدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ان میں اسی حد تک رد و بدل ہوسکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ اجازت دیتے ہوں ۔ اس چیز میں آپ نے قرآن پاک کو بھی شامل کر دیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۲۷ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں ۔ میرے خیال میں یہ چیز قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں ، فرمانِ الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشے میں بھی ردّ و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّ و بدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) اس تحریر میں ’’قرآنی احکام کے جزئیات‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟
(۲) اگر اس سے مراد کوئی آیت پاک ہے تو کیا کوئی غیر صاحبِ وحی اس میں ردّ و بدل کا مختار ہے؟
(۳) رسولِ اکرمؐ کے تشریف لے جانے کے بعد کیا قرآن پاک کے احکام میں رد و بدل ہوسکتا ہے؟
(۴)اور کیا خود رسول اکرمﷺ قرآنی احکام کی جزئیات میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرسکتے تھے؟
(۵)ختم نبوت کے خلاف کیا یہ تحریر ایک ثبوت اور دلیل کا باعث نہیں بنتی ہے؟
(۶) آپ نے جو بات لکھی ہے کیا آپ اس کے سلسلے میں قرآن پاک، سنتِ رسول یا مسلک ائمہِ اربعہ سے ثبوت دے سکتے ہیں ؟
(۷) اگر کوئی دلیل اس سلسلے میں آپ کے پاس نہیں تو کیا آپ اپنی راے سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہیں ؟
مولانا صاحب، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بات کا بتنگڑ بنا کر اس کی تشہیر کرتے اور اسے کسی شخص کے خلاف نفرت و حقارت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے حق سمجھ کر لکھا ہے۔ میرا مطالعہ صرف آپ کی کتب تک محدود نہیں بلکہ اس مختصر عمر میں میں نے اسلاف کی مقدس تحریروں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور یہ کتب مطالعہ کرنے اور جذبہ اسلام پیدا کرنے میں آپ کی کتب کا پورا اور ۱۰۰ فی صد حصہ ہے، جس کے لیے میں اللّٰہ تعالیٰ سے آپ کے لیے جزاے خیر کا طالب ہوں ۔