چند قرآنی مفردات کی توضیح
فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ…… وَبَصَلِھَا ( تفہیم القرآن، جلد اول، ص۷۹-۸۰، رکوع۶)
آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’اپنے رب سے دُعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں ، لہسن، پیاز دال وغیرہ پیدا کرے۔‘‘
’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمے سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّائِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثّائِھَا ’’ککڑیوں ‘‘ کو کہتے ہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے، عبداللّٰہ یوسف علی نے بھی قِثّائِھَا کو انگریزی میں cucumbers لکھا ہے! بصل پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمے میں ترتیب یوں ہوگئی ہے۔ ’’پیاز دال وغیرہ‘‘، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا۔ کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟