تخلیقِ انسانی کے مدارج

مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن جلد دوم میں صفحہ۵۴۰سے۵۴۴ تک
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ( المؤمنون:۱۲-۱۴)
’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللّٰہ سب کاری گروں سے اچھا کاری گر۔‘‘
کی تشریح کرتے ہوئے علم الجنین کے جن مدارج ستہ کو قرآنی الفاظ کے ساتھ چسپاں کرلیا ہے،اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔مولانا کے علم وفضل کی عظمت کے اعتراف کے باوجود مجھے اس بات کے اظہار کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ وسلف صالحین میں سے کسی نے بھی ان مدارج ستہ کو بیان نہیں کیا ہے۔ممکن ہے میں غلط فہمی کی بِنا پر کہہ رہا ہوں ،آپ اس مقام کا بغور مطالعہ کرکے اس’’تحقیق جدید‘‘ کے بارے میں اپنی راے سے مطلع فرمائیں ۔نیز اگر آپ کو مولانا کی اس تشریح سے اختلاف ہو تو پھر فرمایئے کہ آپ کے نزدیک اس آیت کا مطلب کیا ہے اور قدیم تفسیر پر مولانا نے جو اعتراضات کیے ہیں ،آپ کے پاس ان کا کیا جوا ب ہے؟

شکار کرنے اور شکار کھیلنے میں فرق

امیر لوگ آج کل جس طرح شکار کھیلتے ہیں ،اسے دیکھ کر دل بے قرار ہوتا ہے۔ سابق زمانہ میں تو شاید لوگ قوت لایموت کے لیے شکار کو ذریعہ بناتے ہوں گے۔مگر آج کل تو یہ ایک تفریح اور تماشا ہے۔بعض لوگ جنگل یا کسی کھیت میں جال لگا کر خرگوش پکڑتے ہیں ،پھر ان کو بوریوں میں ڈال کر کسی میدان میں لے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے کتے چھوڑتے ہیں ۔ خرگوش کو کھلی جگہ میں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی تو وہ دوڑ دوڑ کر ہار جاتا ہے اور کتے اسے پھاڑ ڈالتے ہیں ۔اس پر خوب تفریح کی جاتی ہے۔

تکبیر پڑھ کرشکار پر کتا چھوڑنا

یہ بھی دریافت طلب ہے کہ بندوق سے شکار کرنا کیسا ہے؟اس معاملے میں میرے سامنے پارۂ دوم کی یہ آیت ہے کہ وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ({ FR 2240 }) (البقرہ:۲۰۵) کتب فقہ میں یہ مسئلہ جو درج ہے کہ تکبیر پڑھ کر شکار پر کتا چھوڑا جائے یا بندوق چلائی جائے تو شکاراگر زخمی ہوکر بغیر ذبح کیے مرجائے تو بھی وہ حلال ہے،اس کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے؟

خنزیر اور دیگرحرام اشیاکی حرمت کی وجہ

قرآن نے چند چیزیں حرام کیوں قرار دی ہیں ؟طبی نقطۂ نگاہ سے یا کسی اور وجہ سے؟ ان میں کیا نقصانات ہیں ؟خنزیر کو خاص طور پر نام لے کر کیوں شدت سے حرام قرار دیا گیا ہے؟کیا یہ سب سے زیادہ مضر حیوان ہے؟چیر نے پھاڑنے والے جانور اور خون وغیرہ کیوں حرام قرار دیے گئے ہیں ؟

جن قوموں میں انبیا ؊ مبعوث نہیں ہوئے ،اُن کا معاملہ

قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات وشکوک طبیعت میں پیداہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں ۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی واعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے،لیکن آیت کا صحیح مفہوم ومطلب نہ سمجھ میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اُردو و عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں ،مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں ۔البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں ۔آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کررہا تھا،سورۂ یٰسٓ زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیت پر میں ٹھیر گیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ (یٰس:۶)
’’ تاکہ تم ڈرائو ان لوگوں کو جن کے آبا و اجداد نہیں ڈراے گئے تھے، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:
لِاَ نَّ قُرَیْشًا لَمْ یَأتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ({ FR 2242 })
’’کیونکہ قریش کی طرف محمد ﷺسے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔‘‘
دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سرزمین عرب میں کوئی نبی ورسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنۃ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا،وہ بری الذمہ ہونی چاہییں ،البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو،پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں ،تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہییں ۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل:۱۵)
’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘

یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

اصحاب ِکہف کی مدتِ نوم

اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاًمذکور ہے،آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیرقدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔

رفعِ طور کی کیفیت

وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَکی آپ نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ بھی مفسرین کے خلاف ہے، بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میں دوسری جگہ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے الفاظ نے آپ کی تفسیر کی واضح تردید کردی ہے۔

تفہیم القرآن میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کا ترجمہ

تفہیم القرآن میں آپ نے الحمد للہ کا ترجمہ ’’تعریف اللّٰہ کے لیے ہے‘‘ کیا ہے۔ حالانکہ مترجمین سلف و خلف نے اس کا ترجمہ ’’تمام خوبیاں اللّٰہ کے لیے‘‘، ’’سب تعریف اللّٰہ کے لیے‘‘ کیا ہے۔ تفہیم القرآن کا ترجمہ کچھ نامکمل، یا ناتمام سا محسوس ہوتا ہے۔