دینی اجتماعات کی فوٹو گرافی

آج سے بیس پچیس سال قبل جماعت اسلامی ہند میں فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے علماء اور اکابر اسے ناپسند کرتے تھے، کسی جلسۂ عام میں اگر پریس رپورٹر آجاتے تھے، ان کے پاس کیمرے ہوتے تو وہ فوٹو کھینچ لیا کرتے تھے۔ ہمارے علماء اور اکابر میں ایسے بھی تھے، جو فوٹو گرافی کروانے سے منع کردیتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو کیمرے کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے چہرے پر کسی کاپی یا کتاب کی اوٹ کرلیا کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہّ تحریکی مزاج اور تقویٰ سے کس حد تک ہم آہنگ تھا، یہ وہ جانیں ۔ یہ وہ علماء اور اکابر تھے، جو ناگزیر ضرورت سامنے آنے پر ہی فوٹو کھنچواتے تھے۔ مگر اب یعنی مولانا ابو اللیث ندویؒ کی امارت کے بعد سے فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کی ہمارے یہاں ایک وبا سی آگئی ہے اور اس وبا کو جنم دینے اور پروان چڑھانے میں ہماری قیادت کا مؤثر رول ہے۔
قرآن حکیم، حضرت محمد ﷺ اور حقوق انسانی کے تحفظ وغیرہ عنوانات پر جماعت نے جو حلقے اور کل ہند سطح پر مہمیں چلائی ہیں ان میں تو گویا فوٹو گرافی کا ایک زبردست طوفان امڈ پڑا تھا۔ اب ہمارا کوئی بھی اجتماع، خواہ وہ ضلع کی سطح کا ہو یا صوبہ کی سطح کا، ہمارا کوئی بھی خطاب عام، خواہ کہیں بھی ہو، فوٹو گرافروں کی خدمات حاصل کیے بغیر نہیں ہوتا۔ ہمارا اسٹیج اب اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس پر درجہ بہ درجہ ذمہ داران کے جلوہ افروز ہونے اور فوٹو کھنچوانے کی گنجائش پیدا کرلی گئی ہے۔ ہمارے ملکی سیشن، ملّی سیشن، سمپوزیم اور سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والوں کے فوٹو (مسلم و غیر مسلم دونوں کے) پورے اہتمام کے ساتھ کھنچوائے جاتے ہیں ۔ بعد میں ان کی طلب پر اور اکثر بلاطلب ان کے پاس ارسال کیے جاتے ہیں ۔ ہمارے دفاتر میں ان فوٹوؤں کے البم قطار اندر قطار سجا کر رکھے جاتے ہیں ۔ حتی کہ خواتین کے اجتماعات میں بھی فوٹو گرافی ہوتی ہے۔
بعض ذمے داران سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ سب کیااور کیوں ہورہا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’’یہ دور سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اگرہم یہ سب نہ کریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ جائز ناجائز کی بات کیجیے تو جواب ملتا ہے کہ ’’موجودہ حالات نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کریں ۔ ہم ان سے بچنا چاہیں بھی تو نہیں بچ سکتے۔‘‘ جواب کی تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب تو ہمارے اکابر اور علماء کرام خود مرکز جماعت میں کرتے ہیں اور دوروں میں ان کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان میں ان کی مرضی اور ہدایت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ پھر جب ہم اپنے مرکزی علماء کرام اور قائدین سے دریافت کرتے ہیں تو جواب میں ہمیں مسکراہٹ آمیز خاموشی سے سابقہ پیش آتا ہے۔ میرے نزدیک آپ بھی تحریک و جماعت کے قابلِ ذکر علماء میں سے ایک ہیں ،جن کی نظر قرآن حکیم اور سنت ِ رسولؐ پر گہری ہے، جو تحریک و جماعت کے مزاج شناس ہیں ۔ میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خود آپ کا ضمیر، آپ کا علم قرآن و سیرت اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

دینی اجتماعات میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم ایک ادارہ چلا رہے ہیں ، جس کے تحت مختلف اوقات میں کانفرنسوں اور دینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں عورتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہیں مخصوص نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ہم انھیں مسجد کی دوسری منزل پر بٹھاتے ہیں ۔ چوں کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی توجہ پروگرام سے ہٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے اگر پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے خواتین کے لیے Projectorیا L.C.D.کا انتظام کیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ مہربانی کرکے ہماری رہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔

سنت نبویؐ کا مقام

عام طور سے مقررین اور واعظین اپنے خطبوں میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑ کر جارہا ہوں ۔ ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری سنت۔ جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے، گم راہ نہ ہوگے۔‘‘ میرے مطالعے سے جو حدیث گزری ہے اس میں صرف ایک چیز کا ذکر ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں کہ کیا دوسری چیز ’سنت‘ کا اضافہ کسی حدیث میں آیا ہے؟

حجاب اور برقعہ

کہاجاتا ہے کہ قرآن میں پردے کے تناظر میں برقعہ پہننے کا صریح حکم موجود نہیں ہے۔ اس لیے صرف اوڑھنی سے سر اور چہرے کا پردہ کرنا اور ساتھ ہی جہاں تک ہوسکے جسم کا ڈھکنا کافی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ چوں کہ ہمارے یہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے تلاشی کے دوران برقعہ والی خواتین کا برقعہ ہٹا کر تلاشی لی جاتی ہے اس لیے بھی برقعہ نہ پہننا بہتر ہے۔
جہاں تک میرا علم ہے، برقعہ اوڑھنا اسلامی شعار ہے اور برقعہ یا حجاب کا صریح حکم قرآن میں ڈھونڈنا ناروا ہے۔ جب کہ سنت سے حجاب کی اہمیت اور فرضیت واضح ہے۔
دو پٹے، اوڑھنی یا چادر سے سر، چہرے اور جسم کو ڈھانکنا میرے خیال میں ناکافی ہی نہیں ، بلکہ دعوت ِ نظارہ کے مترادف ہے۔ چوں کہ عموماً ہم لوگ باہر نکلتے وقت اہتمام سے نئے، خوش رنگ اور نظر کو بھلے لگنے والے کپڑے زیب تن کرتے ہیں ، ساتھ ہی عورتیں عام استعمال کے کپڑے بھی فیشن کو ملحوظ رکھ کر خریدتی ہیں ۔ اس لیے اس طرح کے کپڑوں کو پردہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ جہاں تک تلاشی کے دوران تنگ کیے جانے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس وجہ سے حجاب ترک کرنا بھی گناہ ہے۔ اسے ہم اضطراری حالت تو نہیں کہہ سکتے۔ بھلے ہی انسان دل کو مطمئن کرنے کے لیے کتنے بھی بہانے بنالے، ویسے بھی پردہ دار خواتین کے ساتھ بلاوجہ زیادتی کوئی بھی غیرمسلم، چاہے وہ پولیس والا ہو یا فوجی، نہیں کرتا۔ الا احیاناً۔
یونیورسٹی، آفسوں اور خصوصاً ہسپتالوں میں لڑکے اور لڑکیاں سارا سارا دن گفتگو اور ہنسنے مسکرانے میں گزار دیتے ہیں ۔ سمجھانے یا منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ہم تو اسلام کے بارے میں Discussکرتے ہیں ۔ یہ کون سا اسلام ہے، جس پر اجنبی اور غیرمحرم مرد و زن بے پردگی اور عریانیت کے ساتھ مل کر Discussکرسکتے ہیں ۔ ایک توحرام کام اور پھر اس پر ’’اسلام پر "Discussکرکے ثواب بھی کمایا جارہاہے۔
یہ حالات سخت ذہنی کوفت کاسبب ہیں ، لیکن ہماری بات اس لیے اثر نہیں کرتی کہ ہم دینی تعلیم تو برائے نام بھی کسی مدرسے سے حاصل نہیں کرپائے، صرف مروجہ تعلیم کے ساتھ گھر پر والدین کی توجہ سے تھوڑا سا دین کا علم ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ بالا امور پر خصوصی توجہ سے ہماری رہ نمائی فرمایئے۔ شاید کہ کسی پر اثر ہو۔

پرد ہ – آزاد خیالی اور رواج پرستی کے درمیان

آپ نے پردہ کے تعلق سے جو اظہار ِ خیال فرمایا ہے وہ قطعی غلط ہے۔ حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۂ احزاب کی تفسیر فرماتے ہوئے مذکورہ بالا غلط تعبیر کی تردید فرماتے ہیں ۔ جلد چہارمص: ۱۲۹ پر جو سیر حاصل بحث مولانا نے فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھیے اور اپنا جواب ملاحظہ فرمائیے تو حقیقت کا علم ہوگا۔ پتہ نہیں ، کیوں ؟ جماعت اسلامی کے علما اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان ہی نہیں ، بلکہ جماعت سے دور کا تعلق اور حسن ِ ظن رکھنے والوں کے ہاں باستر مکمل مع چہرہ کے ڈھانپنے والے برقع کا چلن ہے، بلکہ سخت پابندی کے ساتھ ہے۔ پھر آپ کا طرز ِ عمل کس طرح کے برقع کے استعمال کا ہے؟ یعنی آپ اپنے اہلِ خاندان اور اہلیہ محترمہ کو مروجہ طرز کا برقع استعمال کرواتے ہیں یا پھر اسی طرح کا، جس کا اظہار آپ نے اپنے اس جواب میں دیا ہے؟