سر کے بالوں کے وضع قطع کا حکم

آپ نے بعض استفسارات کے جواب میں فرمایا ہے کہ انگریزی طرز کے بالوں کو سر چڑھانا آپ پسند نہیں کرتے،کیوں کہ یہ غیر مسلم اقوام کی وضع ہے،تاہم آپ شرعاًاسے قابل اعتراض بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن بعض علما اس وضع کو ناجائز خیال کرتے ہیں ۔آپ اگر ’ترجمان‘ میں اپنی تحقیق کی وضاحت کردیں تو دوسرے لوگ بھی مستفید ہوسکیں گے۔

حضرت ماریہؓپر زنا کا الزام اور حضرت علیؓ کا ردعمل

منکرین حدیث مسلم شریف کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ ’’آں حضرت ﷺ کی اُم ولد ماریہ قبطیہ سے زنا کرنے کا الزام ایک شخص پر لگایا گیا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ملزم کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ تلوار لے کر اُس شخص کو قتل کرنے گئے تو وہ غسل کررہا تھا۔ حضرت علیؓنے دیکھا کہ وہ مخنث تھا۔آپ واپس چلے آئے اور آں حضرت ﷺ کو یہ واقعہ سنادیا۔اس حدیث سے حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱۔آں حضرت ﷺ نے محض الزام کی بنا پر، مقدمے کی کارروائی کیے بغیر اور ملزم کی صفائی سنے بغیر، اُس کے قتل کا حکم کیسے دیا؟حالاں کہ یہ اسلام کی مجموعی اسپرٹ اور ان احادیث کے خلاف ہے جن میں اسلام کا عدالتی نظام بیان ہوا ہے۔
۲۔ زنا کی سزا درّے ہے یا رجم( اگرچہ منکرین حدیث رجم کے قائل نہیں ) پھر قتل کی سزا مذکورہ مقدمے میں کیوں دی؟
۴۔ حضرت علیؓ نے ملزم کو برہنہ کیوں دیکھا؟ حالاں کہ آں حضرت ﷺ نے کسی کو برہنہ دیکھنے سے کئی احادیث میں منع فرمایا ہے۔
۴۔ حافظ ابن حجرؒ، ابن جوزیؒ، ملا علی قاریؒ اور دوسرے ناقدین حدیث نے جرح وتعدیل کے جو اُصول بیان کیے ہیں ، اس کسوٹی پر اس حدیث کا کیا مقام ہے؟اگر متقدمین اپنی پوری احتیاط کے باوجود بتقاضاے بشریت اس معاملے میں اس جگہ چوک گئے ہیں تو کیا متأخرین کو حق نہیں کہ وہ باوجود اہلیت کے اب اس نقص کو پوراکریں ؟
۵۔ اس حدیث کے متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آں حضرت ﷺکا کلام نہیں ہے بلکہ کوئی راوی مقدمے کی کارروائی بیان کررہا ہے اور غالباً بعض تفصیلات کے متعلق اُس کو ذہول ہو گیا کہ وہ پوری کارروائی اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکا۔

آیت رجم کے متعلق جناب نے جو بحث ترجمان میں فرمائی ہے،آپ نے اس کے ثبوت میں تأمل فرمایا ہے۔حالاں کہ بخاری شریف میں نوکر اور سیدہ کے زناکے معاملے میں لڑکے کے والد کا حضور ﷺ کو عرض کرنا، انْشُدُکَ اللّٰہَ اِلاَّ قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ، اور حضورﷺ کا فرمانا: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَاَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ({ FR 2041 })ان دونوں قسموں کے بعد کون سا اشتباہ رہ جاتا ہے؟کیا حضورؐ کی قسم ہمارے یقین کے لیے ناکافی ہے؟ یا بخاری کی احادیث کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر فاروق اعظمؓ کے خطبہ فَکَانَ مِمَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَرَ أنَاھَا وَعَقَلْنَا ھَا وَوَعَیْنَاھَا ({ FR 2042 }) سے ہمیں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ یوم الجمعہ مسجد میں فقہا صحابہ کی موجودگی میں کتاب اﷲ ورسول اﷲ پر افترا کرسکتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر نعوذ باﷲ جو صحابہؓ موجود تھے،وہ سب حرارتِ ایمانی سے خالی ہوچکے تھے۔ ایک نے بھی نہ ٹوکا۔ جو ایک قمیص کے ٹکڑے پرحضرت عمرؓ کو اسی منبر پر ٹوک سکتے ہیں کتاب اﷲ پر افترا میں نہ ٹوک سکے۔ یا قرآن سے ایک قمیص کا ٹکڑا زیادہ قیمتی تھا؟ آپ کا یہ فرمانا کہ عمرؓ کے اس قول پر اجماع منعقد نہیں ہوا،اس لیے کہ سب صحابہؓکی موجودگی یقینی نہیں ، کیا صحابہ صلاۃ جمعہ سے بھی غیر حاضری کرتے تھے؟ حضرت عبدالرحمانؓکا یہ فرمانا: فَإِنَّھَا دَارُالْھِجْرَۃِ وَالسُّنَّۃِ فَتَخْلُصُ بِأَھْلِ الْفِقْہِ وَأشْرَافِ النَّاسِ ({ FR 2043 }) صاف تصریح نہیں ؟ ان دنوں فقہاے صحابہ مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔بالفرض اگر تمام موجود نہ تھے،کیا موجود حضرات نے غیر موجود حضرات سے اس مسئلے کی تصدیق یا تکذیب کسی نے نہ کرائی؟اگر واقعی صحابہ کا کتاب اﷲ کے ساتھ یہی تساہل وتغافل رہا ہے اور کتاب اﷲ میں کمی بیشی ہوتی رہی تو روا فض بالکل حق بجانب ہیں ۔مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت سے مدلل بیان فرما ویں ۔ حضورﷺ کی قسم اور عمرؓ کا تشدیدی خطبہ، حدیث بخاری کے مقابل کوئی قوی دلیل چاہیے۔کسی مفسر ومجتہد کا قول مشکل سے مقابل ہوسکے گا۔

آیتِ رجم کی تحقیق

آپ نے رسائل ومسائل حصہ دوم[سوال نمبر۲۰۴] میں ’’ نسخ قرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آیتِ رجم توریت کی ہے،قرآن کی نہیں ۔‘‘ میں حیران ہوں کہ آپ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا ہے جو صاف تصریحات کے خلاف ہے۔ سلف سے خلف تک تمام علماے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے: وَالنَّسْخُ قَدْ یَکُوْنُ فِی التِّلَاَ وَۃِ مَعَ بَقَائِ الْحُکمِ ({ FR 2129 })
اب میں وہ دلائل عرض کروں گا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ’’آیت رجم‘‘ جناب رسول اکرم ﷺ پراتری اور وہ قرآن کی آیت تھی:
(۱)حضرت ابو ہریرہؓ اور زید بن خالدؓ کی روایت میں ہے جب دو آدمی زنا کا کیس لے کر آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بخدا میں تمھارا فیصلہ کتاب اﷲ کے مطابق کروں گا۔‘‘ پھر آپ ؐ نے شادی شدہ زانیہ کے لیے رجم کی سزا تجویز کی۔(۲) ظاہر ہے کہ کتاب اﷲ سے مراد قرآن مجید ہے۔
(۲)حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے جناب محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری۔ رجم کی آیت بھی اس کتاب میں تھی جسے اﷲ نے اُتارا۔ ہم نے اس(آیت رجم) کو پڑھا، سمجھا اور یاد رکھا۔ حضور ؐ نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتاب اﷲمیں تو رجم کی آیت نہیں ہے اور خدا کے نازل کردہ فریضے کو چھوڑنے کی وجہ سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں ، حالاں کہ اﷲ کی کتاب میں رجم ثابت ہے۔‘‘ ({ FR 2036 })
(۳)سعید بن مسیب کی روایت ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: خبردار، آیت رجم کا انکار کرکے ہلاکت میں نہ پڑنا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم زنا کی دونوں حدوں کو کتاب اﷲ میں نہیں پاتے۔ جناب رسول اﷲﷺ نے رجم کی سزا دی اور ہم نے بھی یہ سزا دی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس الزام کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمر بن الخطاب نے کتاب اﷲ میں زیادتی کی ہے تو میں یہ آیت (قرآن میں ) لکھ دیتا: اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُو ھُمَا اَلْبَتَّۃَ({ FR 1916 }) ’’بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو‘‘۔ بے شک یہ ایک ایسی آیت ہے جسے ہم نے پڑھا۔
(۴)علامہ آلوسیؒ نےاپنی مشہور تفسیر میں لکھا ہے: وَنَسْخُ الْاًیۃِ عَلٰی مَا ارْتَضَاہٗ بَعْضُ الْاُصُوْلِیّیْنَ۔ بَیَانُ اِنْتِھَائِ التَّعَبُّدِ بِقَرَائتِھَا کَآیۃٍ (اَلشَّیْخُ والشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجِمُوْھُمَا نَکَالاً مِنَّ اللّٰہ وِاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ)({ FR 1917 })
احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو اُلجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیونکہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرا ر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اﷲﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعے میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں ؟ یہ ایک ناقابل حل معما ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کررکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی اُلجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیے۔ اگر آپ میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرج عبارت کو آپ بدل دیں ۔‘‘

۷۲فرقوں والی حدیث اور اتحادِ اُمت

آپ فرقہ پرستی کے مخالف ہیں مگر اس کی ابتدا تو ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ […] عن قریب میری اُمت۷۲فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا،جو میر ی اور میرے اصحاب کی پیروی کرے گا‘‘({ FR 2034 }) (بلکہ شیعہ حضرات تو’’اصحاب‘‘ کی جگہ’’اہل بیت‘‘کولیتے ہیں )اب غور فرمایے کہ جتنے فرقے موجود ہیں ،سب اپنے آپ کو ناجی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ۔ پھر ان کو ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟جب ایسا ممکن نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ حدیث حاکمیت غیر اﷲ کی بقا کی گارنٹی ہے۔بہت سے لوگ اسی وجہ سے فرقہ بندی کو مٹانے کے خلاف ہیں کہ اس سے حدیث نبویؐ کا ابطال ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺکی ازواجِ مطہرات سے قربت

میں نے تجرید البخاری مؤلفہ علاّمہ حسین بن مبارک متوفی ۹۰۰۱ھ کے اُردو ترجمے میں جو فیروز الدین صاحب نے لاہور سے شائع کیا ہے، صفحہ۸۱ پر ایک حدیث کا مطالعہ کیا جو حسب ذیل ہے:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی ازواج مطہراتؓ کے پاس ایک ہی ساعت کے اندر رات دن میں دورہ کرلیتے تھے۔ اور وہ گیارہ تھیں (ایک روایت میں آیا ہے کہ نو تھیں ) حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ آپؐ ان سب کی طاقت رکھتے تھے؟ وہ بولے ہم تو کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کی قوت دی گئی ہے۔
جناب والا سے میں توقع رکھتا ہوں کہ براہ کرم مذکورہ بالا حدیث کی صحت پر روشنی ڈالیں ۔ کیا یہ امرِ واقعہ ہے کہ حضورﷺ نے ایک ہی ساعت کے اندر اپنی جملہ ازواج مطہراتؓ سے مقاربت کی ہے؟ اور اگرمقاربت کی ہے تو حضرت انسؓ کو کس طرح اس کا علم ہوگیا؟ کیا حضورؐ نے حضرت انسؓ سے اس مقاربت کا ذکر فرمایا؟ یا ازواج مطہراتؓ میں سے کسی نے اس ازدواجی تعلق کا راز فاش کیا؟ یا حضرت انسؓ کو آں حضرت کی خلوت کا ہر وقت علم ہوتا رہتا تھا؟ یا حضرت انسؓ خود اس خلوت کا علم حاصل کرنے کی کھوج میں لگے رہتے تھے؟ آخر حضورﷺ کو اس قدرعُجلتِ مقاربت کی کیا ضرورت درپیش تھی جب آپ کی باریاں مقرر تھیں ؟ اور کیا بہ وقت واحد اس قدر کثرتِ مقاربت سے حضورﷺ کی صحت و توانائی پر کچھ اثر نہ پڑتا تھا؟

توبہ کی فضیلت یا گناہ کی ترغیب؟

ایک مضمون میں ذیل کی حدیث نقل ہوئی ہے:
’’] … [ اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کیا تو تم لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اٹھا لے گا اور ایک دوسری قوم لے آئے گا جو گنا ہ کرے گی اور مغفرت چاہے گی، پس اﷲ اس کو بخش دے گا۔‘‘({ FR 2032 })
ناچیز کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث شاید موضوع ہوگی جو بداعمالیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنا لی گئی ہوگی۔بظاہر اس میں جتنی اہمیت استغفار کی ہے ،اس سے کہیں زیادہ گنا ہ کی تحریص معلوم ہوتی ہے۔کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہے؟

حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ…کی علمی تحقیق

میرے ایک دوست نے جو دینی شغف رکھتے ہیں ،حال ہی میں شیعیت اختیا ر کرلی ہے۔ انھوں نے اہل سنت کے مسلک پر چند اعتراضات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔ اُمید ہے کہ آپ ان کے تشفی بخش جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے:
(۱)نبی اکرم ﷺ کی حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَ رَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ الْبَابَ کامفہوم کیا ہے؟
(۲) کیا اس حدیث سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ علم —دینی علم — کے حصول کا واحد اور سب سے معتبر ذریعہ صرف حضرت علی ؓ کی ذات گرامی ہے اور اس کے سوا جن دوسرے ذرائع سے علم دین حاصل کیا گیاہے، وہ ناقص ہیں اور اس وجہ سے ان کی دین کے اندر کوئی اہمیت نہیں ؟

مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں شفا

اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گر جائے تو اُسے غوطہ دے کر نکالو، کیوں کہ اُس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفا۔ مہربانی کرکے اس حدیث کی تشریح کیجیے۔

چھپکلی کو مارنے کی وجہ

اُم شریکؓ کی روایت(بخاری جلد دوم،صفحہ۵۰۰) کے مطابق نبی ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا تھا کیوں کہ یہ اُس آگ کو پھونکوں سے بھڑکاتی تھی جس میں ابراہیم ؈ کو پھینکا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایک چھپکلی کی پھونکوں میں آگ بھڑکانے کی طاقت کہاں سے آگئی؟ اور پھر ایک چھپکلی کے جرم کے بدلے چھپکلیوں کی ساری نسل کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟