تخلیقِ زرکی اجازت
کیا اسلامی بنکنگ میں تجارتی بنکوں کو تخلیق زر کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟…اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر اس کی اجازت نہ ہوگی تو اعتباری نظام میں لچک کس طرح پیدا کی جائے گی؟
کیا اسلامی بنکنگ میں تجارتی بنکوں کو تخلیق زر کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟…اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر اس کی اجازت نہ ہوگی تو اعتباری نظام میں لچک کس طرح پیدا کی جائے گی؟
موجودہ دور میں ہر کاروبار کو عورت کے اشتہار کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے۔الحمد ﷲ کہ میں اس لعنت سے بچا ہوا ہوں ،لیکن جو چیزیں ولایت سے آتی ہیں یا ملک وقوم کے لوگ تیار کرتے ہیں ،ان پر عورت کی تصویر مختلف ہیئتوں (poses) میں نمایاں رہتی ہے۔لیبل کو پھاڑ دینے سے چیز کو فروخت کرنا مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ تم تصویروں کی خرید وفروخت کرتے ہو اور یہ حرام ہے۔
کیا شریعت نے سودے کو ایک دام پر فروخت کرنے کی قید لگائی ہے؟اگر نہیں تو مول بھائو چکانا درست ہے؟
بعض ایجنٹ مال سپلائی کرتے وقت دکان دار سے کہتے ہیں کہ اگر مال فروخت کرکے ہمیں رقم دو گے تو۲۰فی صدی کمیشن ہم آپ کو دیں گے،اور اگر نقد قیمت مال کی ابھی دو گے تو ۲۵ فی صدی کمیشن ملے گا۔کیا اس طرز پر کمیشن کا لین دین جائز ہے؟
ایک گروہِ کثیر کا خیال ہے کہ موجودہ انگریزی گورنمنٹ کا مال، بالخصوص وہ مال جو پبلک کے مفاد پر صرف نہیں ہوتا بلکہ اسے گورنمنٹ اپنے مفاد اور تحفظ پر صرف کرتی ہے،جس صورت میں لیا جاسکے، لے لینا جائز ہے۔یعنی خیانتاً یا بذریعہ رشوت وغیرہ۔اس پر دلیل یہ لائی جاتی ہے کہ سود جس کا لینا قطعی حرام ہے،اعاظم علما کے فتووں کے مطابق سرکاری بنک سے وصول کرلینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر اسے بنک میں چھوڑا جائے تو عیسائی مشنریوں کی وساطت سے وہ خود اسلام کے خلاف استعمال ہوگا۔پھر فرمائیے کہ وہ مال جو کسی غلط نظام حکومت کے استحکام میں صرف ہوتا ہے اورجس کے متعلق یہ بھی ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایا ہی سے بطور غصب لیا گیا ہے،کیوں نہ اسے ہر ذریعے سے واپس حاصل کیا جائے؟
میں نے حال ہی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا ہے،اور اس پیشے میں خاصا کام یاب ہوا ہوں ، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک وکیل کو قوانینِ الٰہیہ کے برخلاف روزانہ قوانین انسانی کی بِنا پرمقدمات لڑنے پڑتے ہیں ۔وہ اپنا پورا زورلگا کر اس چیز کو حق ثابت کرتا ہے جسے انسانی قوانین حق قرار دیتے ہیں ،خواہ خدائی قانون کی رُو سے وہ حق ہو یا نہ ہو۔ اور اسی طرح باطل اسے ثابت کرتا ہے جو ان قوانین کی رو سے باطل ہے،خواہ قانونِ الٰہی کے تحت وہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ محتاط سے محتاط وکیل بھی عدالت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی معاً حق و باطل اور حقوق اور ذمہ داریوں کے اس معیار کو تسلیم کرتا ہے جس کو انسان کی خام کار عقل نے اپنی خواہشاتِ نفس کے ماتحت مقرر کررکھا ہے۔ غرض یہ کہ ایک وکیل کفر کی اچھی خاصی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیتا ہے،لیکن کوئی پیشہ بھی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جسے اختیار کرکے آدمی نجاستوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس دُہری مشکل کا حل کیا ہے؟میں یہ سوال اُس مسافر کی پوری آمادگیِ عمل کے ساتھ کررہا ہوں جو پا بہ رکاب کھڑا ہو۔
مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز (حکومتی اشیا میں )سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟
آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے، مگر بعض لوگ اس خرید وفروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اورپولیس بھی اس پر گرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
تسعیر یا نرخ بندی یعنی سرکاری طور پر اشیاء کی قیمتوں کو مقرر کر دینے کے سلسلے میں اسلام کی پالیسی کیا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کے بارے میں کیا حکم ہے؟