دلالی کی ایک ناجائز صورت

زمین دار لوگ جب کبھی لوہے یا لکڑی کا کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے لوہار یا بڑھئی کے ذریعے خریدتے ہیں جو بعض کارخانوں ا ور دکانوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور وہاں سے سامان خریدواتے ہیں ، اور ہوتا یوں ہے کہ یہ لوگ دکان پر جاتے ہی آنکھوں کے اشاروں سے دلّالی کی فیس دکان دار سے طے کرلیتے ہیں جس سے زمین دار بے خبر رہتا ہے۔ اگر دکان دارلوہار یا بڑھئی کی دلاّلی کا کمیشن ادا نہ کرے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے زمین داروں کو اس کی دکان پر نہ لائے گا بلکہ کسی دوسری جگہ ساز باز کرے گا۔اور جو دکان داران کا کمیشن دینے پر راضی ہو،وہ خراب مال بھی اگر دکھائے تو یہ خاص قسم کے دلّال اس کی تعریف کریں گے اور اسے بکوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سازش اگر زمین دار پر آشکارا ہوجائے تو وہ اپنے بڑھئی یا لوہار کو ایک دن بھی گائوں میں نہ رہنے دے۔ یہ صورتِ معاملہ کیسی ہے؟

نظامِ کفر وفسق میں کسب ِمعاش کی مشکل

آپ کی تحریروں کو دیکھنے کے بعد میں اپنے موجودہ ذریعۂ معاش سے بیزار ہورہا ہوں لیکن کافرانہ نظامِ حکومت وتمدن کے ماتحت کسبِ حلال قریباًناممکن التصور ہے۔ ملازمت،کاشت کاری اور تجارت سب پیشوں میں حرام داخل ہوگیا ہے۔ پھر ہمارے لیے کون سا راستہ ہے؟

ایک طبقے کے لیے رعایتی قیمتوں سے دوسرے طبقے کا فائدہ اٹھانا

حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے ۔دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں ۔پھر کیا مؤخر الذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعے حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟مثلاً مروّت یا دبائو سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محرومِ رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟

مسلمان تاجروں کا اپنی جمعیت بنانا

کاروبار میں اسلامی اصولِ اخلاق کا استعمال
ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے ۔موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میں جمعیت ہاے تاجرانِ غلّہ (foodgrain’s associations)قائم ہیں ۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی’’فوڈ گرین سنڈی کیٹس‘‘ بنائیں ۔ گورنمنٹ ہر سنڈی کیٹس کو اشیاے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آئندہ غلے کا سارا کاروبار صرف سنڈی کیٹ({ FR 1634 }) ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصے داروں پر تقسیم ہوجایا کرے گا۔چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈی کیٹس بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلّے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چوں کہ سنڈی کیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے، لہٰذا بنک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بنک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈی کیٹس سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈی کیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنھیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈی کیٹس دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بنک سے قرض لے،جس کا سود سنڈی کیٹس ادا کرے گی۔ اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پورے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے اور بنک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبارگندا نہ ہونے دیں گے۔ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈی کیٹس نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں ، اختیار کرسکتے ہیں ۔
اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا،وہ سب ہمارے اُصول کی بہت قدرکررہے ہیں ۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اُصول کی خاطر ہر فائدے کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں ۔ان پر ہمارے اس رویے کا اخلاقی اثر اس درجے گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بوری گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے۔ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔آخر راقم الحروف کا جانا طے ہو گیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا،کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسروں کو کرنے دے گا۔اس سلسلے میں حسب ذیل اُمور کے متعلق آپ کی ہدایت درکار ہے۔
سرِدست تو ہمارا اور ان غیر مسلم تاجروں کا ساتھ نبھ رہا ہے،لیکن آگے چل کر اگر یہ ساتھ نہ نبھ سکا تو پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی ایک الگ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ بنالیں اور خدا کی نافرمانی سے ہر ممکن حد تک بچ کر اپنا کاروبار چلائیں ؟

تجارتی شرکت ،اُصولی یا قوم پرستانہ

ہندو مسلم مخاصمت کی وجہ سے یہاں کی فضا حد درجے خراب ہے، اور چوں کہ مارکیٹ پر ہندوئوں کا قبضہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے میں تکلیف پیش آرہی ہے۔ان حالات میں ایک مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حصے کا پورا کوٹا اسی کو ملے۔ہمیں بعض اصحاب مشورہ دے رہے ہیں کہ تم بھی اس میں شامل ہوجائو۔ مگر ہمیں اس کے اندر قوم پرستانہ کش مکش کی بُو محسوس ہوتی ہے اور اسی بِنا پر ہم اس سے پرہیز کررہے ہیں ۔کیا یہ رویہ ہمارے لیے مناسب ہے؟