رشوت دینے کی مجبوری
ریلوے اسٹیشنوں سے جب مال کی بلٹیاں چھڑوانے جاتے ہیں تو ریلوے کے کلرک رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں ، جسے اگر رد کیا جائے تو طرح طرح سے نقصان اور تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ایسے حالات میں ایک مومن تاجر کیا کرے؟
ریلوے اسٹیشنوں سے جب مال کی بلٹیاں چھڑوانے جاتے ہیں تو ریلوے کے کلرک رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں ، جسے اگر رد کیا جائے تو طرح طرح سے نقصان اور تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ایسے حالات میں ایک مومن تاجر کیا کرے؟
سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبر واکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں ، انھیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا، اس لیے یہ حلال ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے،اسے بھی اپنی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائزسمجھتے ہیں ۔میں اپنے حلقہ ٔ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔
کیاایسے افسروں کو ٹی پارٹیاں دینا بھی رشوت میں شمار ہوگا جن کو حکومت کسی ایک فرد یا جماعت کے کام کی جانچ پڑتال کے لیے وقتی طور پر مقرر کرتی ہے؟ یہ لوگ تو غالباً اصطلاحی افسر کی حیثیت نہیں رکھتے، پھر ان کی خاطر ومدارات میں کیا حر ج ہے؟
زید پر حکومت کی طرف سے ناجائز ٹیکس واجب الادا ہیں ۔ وہ انھیں مجبوراًادا کرتا ہے۔زید نے اس نقصان کی تلافی کا یہ حیلہ سوچا ہے کہ اس کا جو روپیا بنک یا ڈاک خانے میں ہے،اس پر وہ سود وصول کرلے۔کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
ایک متدیّن بزرگ جو ایک یونی ورسٹی میں دینیات کے پروفیسر بھی ہیں ، اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :
’’جو تاجر یا زمین دار گورنمنٹ کو ٹیکس یا لگان دے رہے ہیں ، اگر وہ ڈاک خانے یا امپریل بنک میں روپیا جمع کرکے گورنمنٹ سے سود وصول کریں تو ان کو بقدر اپنے ادا کردہ ٹیکس ولگان کے گورنمنٹ سے سود لینا جائز ہے۔‘‘
ایک دوسرے مشہور ومعرو ف عالم دین اس سے آگے قدم رکھ کے فرماتے ہیں :
’’قرآن ،حدیث، اجماع،قیاس،الغرض کسی بھی شرعی دلیل سے حربی کے اموال کی عدمِ اباحت کا ثبوت کوئی صاحب پیش کرسکتے ہوں تو کریں ……افسوس کہ علماے اسلام نے اس قیمتی نقطۂ نظر پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کیا،ورنہ اِدھر ڈیڑھ سو سال میں مسلمان جن معاشی دقتوں میں مبتلا ہوگئے غالباًیہ صورت حالات نہ ہوتی۔ ملک کے باشندوں کا ایک طبقہ سودلیتا رہا اور دوسرا طبقہ سود دیتا رہا،اس کی وجہ سے جو معاشی عدم توازن اس ملک میں پیدا ہوگیا ہے،اس کی ذمہ داری اسلام پر نہیں ، بلکہ زیادہ تر علما پر اس لیے ہے کہ ان کے معاشی نظام میں اس صورت کا علاج موجود تھا لیکن انھوں نے ایک جز پر عمل کیا اور دوسرے کو ترک کر دیا۔‘‘
علماے کرام کی ان بحثوں نے ہم کو تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ سود سے اجتناب کی جس روش پر ہم اب تک قائم ہیں ،کہیں وہ غلط تو نہیں ہے۔ یہ تو عجیب معاملہ ہوگا کہ ایک طرف تو ہم آخرت ہی کے اجر کی امید پر دنیا میں نقصان اُٹھائیں اور دوسری طرف آخرت میں جاکر ہم کو یہ جواب مل جائے کہ تمھارا سود سے اجتناب کسی شرعی حکم کے مطابق نہ تھا،لہٰذا تم کسی اجر کے مستحق نہیں ہو۔
بعض ہندو حضرات جو ہمارے اُصول واخلاق کے قدر دان ہیں ہمیں بَہ اخلاص یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر بنک سے آپ لوگ معاملہ نہ کریں گے تو سنڈی کیٹ کے ساتھ آپ کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ علیحدہ ہوکر بھی آپ کاروبار نہ چلاسکیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسی صورت پیش آجائے تو ہم کیا کریں ؟کیا اضطرار اًبنک سے معاملہ کرلیں ؟
روپے کے سود اور زمین کے کرایے میں کیا فرق ہے؟خاص کر اس صورت میں جب کہ دونوں سرمایے کے عناصر ترکیبی (units of capital) ہیں ۔مثال کے طور پر ایک صد روپیا پانچ روپے سالانہ کی شرح سود پر لگایا جائے یا ایک بیگھ زمین پانچ روپے سالانہ لگان پر، آخر ان دونوں میں کیا فرق ہے؟دونوں حالتوں میں یہ معاملہ مشتبہ ہے کہ فریق ثانی کو نفع ہوگا یا نقصان۔سرمایہ کار (lender)کو اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔صاحب زر یاصاحب زمین نفع ونقصان سے بالکل بے نیاز رہتا ہے۔
موجودہ زمانے میں جب کہ تجارتی کاروبار بلکہ پوری معاشی زندگی سود کے بل پر چل رہی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں سود رچ بس نہ گیا ہو، کیا سود کا استیصال عملاً ممکن ہے؟ کیا سود کو ختم کرکے غیر سودی بنیادوں پر معاشی تعمیر ہو سکتی ہے؟
غیر ملکی تاجر جب ہم سے سودنہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے تو کیا اپنے مال کی قیمتیں نہیں بڑھا دیں گے؟کیا اس طرح سے سودی لین دین کا بند کرنا عملاًبے سود نہ ہوجائے گا؟
موجودہ بیرونی تجارت میں ایک عملی دقت یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بنک میں (letter of credit) کھولنا ضروری ہوتا ہے اور بغیر سود کے اس کا کھلنا ممکن نہیں ہے۔