زمین داری میں رضا کارانہ طور پر اصلاحات کا آغاز

میں ایک بڑ ی زمین داری کا مالک ہوں ۔میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اپنے مزارعین سے شریعت محمدیؐ کے مطابق معاملہ کروں ۔ اس مقصد کے لیے میں اپنے موجودہ طرز عمل کی تفصیلات تحریر کررہا ہوں ۔({ FR 1551 }) ان کے بارے میں واضح فرمایے کہ کیا کیا چیزیں غلط ہیں اور کیا کیا صحیح ہیں ؟
میں نے ہر مزارع کو دس بارہ ایکٹر زمین فی ہل دے رکھی ہے۔بیگار مدت سے رائج تھی، لیکن میں نے بند کردی ہے۔صرف وسائل آب پاشی کی درستی مزارعین کے ذمے ہے۔

تخم پختہ اجناس بذمہ مزارعان ہوتا ہے اور قیمتی اجناس کے تخم کا ۳۱ حصہ میں دیتا ہوں ۔

تین سیر فی من( ۳۱ حصۂ پیدا وار کے علاوہ)کل پیدا وار میں سے جداگانہ طو رپر وصول کیا جاتا ہے اور کسی طرح کا لگان یا بیگار پہرہ وغیرہ کی خدمات نہیں لی جاتیں ۔

میرے ملازمین کاشت بھی ہیں جن میں سے چند حصہ پر ہیں اور چند تنخواہ دار ہیں ۔ حصہ داری پر کام کرنے والے میرے بیلوں کے ساتھ میری اراضی میں میرے منیجروں کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں ۔بیج میرا ہوتا ہے۔ بعد میں ملکیت کے طور پر ۳۱ حصہ بٹائی اورتین سیر فی من کل انبارمیں سے وصو ل کرتا ہوں ۔بقیہ غلہ کا نصف بیلوں کے مصارف میں لیا جاتا ہے اور نصف کارکنوں کی کارکردگی کے حق میں دیا جاتا ہے۔
مثلاً الف،ب،ج میرے حصے دار ہیں اورد،ذ میرے ملازم ہیں ۔ان کے پاس میرےپانچ جوڑی بیل کاشت کے لیے ہیں ۔ میں ۵۰من غلے میں سے اپنی بٹائی لے کرتین حصے الف،ب،ج کو دوں گا،باقی پانچ حصے بیلوں کے اور دو حصے تنخوا ہ دار ملازموں کے میں لوں گا،کیوں کہ ان کی تنخواہ میرے ذمے ہے۔آبیانہ وغیرہ علاوہ ملکیتی لگان سرکاری کے مندرجۂ بالا نسبت سے ادا ہوگا۔

میری ملکیت وراثتاً میرے پاس منتقل ہوئی ہے اور میرے آبائ و اجداد نے حکومت سے یادوسرے زمین داروں سے’’قیمتاً‘‘لی تھی۔میرے پاس کوئی سرکار ی جاگیر وغیرہ نہیں ۔ اس کی شرعی حیثیت بیان کیجیے۔

دوبارہ متکلف ہوں کہ جو چند باتیں جناب کے نوازش نامے سے نہیں سمجھ سکا، ان کی مزید توضیح کی درخواست کروں :
اگرتین سیر فی من بٹائی کے علاوہ لینا درست نہیں ہے تو پھر دوسرا یہ راستہ ہے کہ بٹائی کی شرح تبدیل کروں ۔ مثلاً ۳۱ کے بجاے ۵۲ یا ۵۳ کی شرح قائم کی جاسکتی ہے،یا کوئی اور صورت جو شرعاً زیادہ مناسب ہو تحریر فرمائیں ۔حصہ داروں اور ملازمین کے رقبوں کو علیحدہ کرنے کے لیے میں نے آج ہی کہہ دیا ہے۔بہرحال بٹائی کے شرعی طریق یا تناسب سے مطلع فرمائیں ۔

آپ نے فرمایا ہے کہ میرے ملازمین یا منیجروں کو مزارعین کے کام میں دخل دینے کا حق نہیں پہنچتا۔سوال یہ ہے کہ اگر ان کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ مالک زمین کا حق مار کھائیں گے اور کماحقہ محنت نہ کریں گے۔ ملازمین کے مصارف کا بوجھ صرف مجھی پر ہوتا ہے، مزارعین کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

آپ نے فرمایا ہے کہ میں اپنی ملکیت کو اس وقت شرعی وارثوں میں (جو موجود ہوں ) تقسیم کردوں ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میرے باپ پر جو حصے ازروے شریعت واجب الادا تھے تو یہ ان کے ذمے تھے۔میرے نام مرحوم والد نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی ملکیت بروے ہبہ منتقل کردی تھی اوریہ واقعہ ان کی فوتگی سے چھ سال قبل کا ہے۔اندریں حالات مجھ پر صرف میرے اپنے ہونے والے ورثا کا حق واجب ہوگا یا والد مرحوم کے پس ماندگان کا بھی؟ اگر والد مرحوم کے پس ماندگان کو میں ان کا حق ادا کرنا بھی چاہوں تو میرے دوسرے بھائی اس معاملے میں ساتھ نہ دیں گے اور میں اکیلا ان کے حقوق پورے کر ہی نہیں سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ والد مرحوم کے ذمے داری سے متعلق تھا نہ کہ مجھ سے۔

مزارعین کی بے دخلی روکنے کا قانون

مزارعین کی بے دخلی کے سلسلہ میں یہ تو واضح ہے کہ فصل کی برداشت سے پہلے بے دخلی نہیں ہوسکتی۔لیکن اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ بے دخلی روکی جائے۔اگر کوئی اور صورت ہو تو مع دلیل بیان کریں ۔

حکومت کا جاگیروں کو واپس لینے کااختیار

زرعی اصلاحات کے سلسلہ میں جاگیروں کی واپسی میں واجبی حدود سے زائد واپس لینے کی دلیل بیان فرمائیں ، جب کہ حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہ کو حضور ﷺ نے گھوڑے اور چابک کی جو لان گاہ تک کی زمین دی تھی۔