ملکیتوں کو نظامِ حکومت کے سپرد کرنا

ایک عالم نے یہ سوال کیا ہے کہ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہان کی نعمتوں سے ہر فر د بشر کو منتفع ہونا چاہیے۔ اب انتفاع عامہ کے لیے اگر ملکیتوں کو نظام حکومت کے سپرد کردیا جائے تو یہ قرآن کا منشامعلوم ہوتا ہے۔

غیر مقبوضہ مال کی خرید وفروخت

ایک درآمد کنندہ(importer) غیر ممالک سے مال منگوانے کے لیے ۰افی صدی پر بنک میں لیٹر آف کریڈٹ کھولتا ہے، اور بعد میں اپنے اس بک کرائے ہوئے مال کو انھی شرائط کے مطابق جن شرائط پر اس نے خود مال بک کیا تھا،فروخت کردیتا ہے۔ یعنی دس فی صدی بیعانہ کے ساتھ۔
مذکورۂ بالا شرائط میں سے ایک اہم اور واضح شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر مال مذکور تحریر کردہ مدت کے اندر شپ(ship)نہ ہوسکا،یا کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے سرے سے سودا ہی منسوخ ہوگیا تو خریدار کو بیعانہ واپس لے کر معاملہ ختم کرنا ہوگا۔(عملاًاسی طرح ہوتا ہے)
گویا مال شپ نہ ہونے کی صورت میں خریدار اس مال کے نفع نقصان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اگر مال بک ہوگیا تو مال کا بھگتان ہوتا ہے ورنہ دوسری صورت میں بیعانہ واپس اور سودا منسوخ۔ چاہے یہ سودا کئی جگہ پر فروخت ہوچکا ہو۔
اس طریق کار میں وہ کون سے نقائص اور خرابیاں ہیں جن کی بنا پر اسے شرعاًنادرست کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا لاکھوں روپے کا کاروبار قریباًہر مہینے ہم کرتے ہیں اور اس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں کہ یہ طریقہ درست بھی ہے یا نہیں ۔ایک ’’صاحب علم‘‘ کی راے اس کے حق میں بھی ہے۔

نفع کی مقدار مقررکرنا

کیا شریعت نے نفع کی مقدار مقرر کی ہے؟اگر ہے تو کیا؟اور اگر نہیں ہے تو کہاں تک نفع لیا جاسکتا ہے؟کیا دکان دار کو اس چیز کا اختیار ہے کہ وہ اپنی چیزمارکیٹ کے لحاظ سے یا کسی اور دام پر فروخت کرسکے؟(واضح رہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں بہت کم نفع ہوتا ہے،یا خرید کی قیمت یا کچھ کم پر فروخت کرنی پڑتی ہیں )۔

نرخ مقرر کیے بغیر مال سپلائی کرنا

کارخانہ دار کو مال بغیر نرخ مقرر کرنے کے سپلائی کرتے جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ طے کرلیتے ہیں کہ ہم دوصد یا ہزار من مال دیں گے اور ایک مدت مقرر کرلیتے ہیں کہ اس کے اندر اندر ہم نرخ مقرر کرلیں گے۔جس دن ہمیں نرخ اچھا معلوم دے،ہم اسی دن فکس کرلیتے ہیں ۔بعض اوقات مال پہنچانے کے بعد ہم دو ماہ تک کا وقفہ بھی مقرر کرنے کے لیے لے لیتے ہیں ۔کارخانہ دار مال کے پہنچنے پر ہمیں کچھ پیشگی یعنی حاضر نرخ کا۶۰یا۶۵فی صدی ادا کرتا رہتا ہے۔نرخ مقرر کرنے پر کل رقم ادا ہوجاتی ہے۔
براہ کرم کتاب وسنت کے علم کی روشنی میں اس معاملہ کی حقیقت واضح فرمائیں ۔

اس طرح کے سودے کپاس اُترنے پر ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔بعض لوگ تو کپاس اُترنے سے دو چار ماہ پیش تر ہی ایسے سودے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔

بولی کی ناجائز صورتیں

مسلمان نیلام کنندہ کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ جب کوئی شخص بولی نہ چڑھائے اور وہ دیکھے کہ اس میں مجھے نقصان ہوگا تو وہ خود بولی دے کر مال کو اپنے قبضے میں یہ کہہ کر رکھ لے کہ یہ مال پھر دوسرے وقت میں نیلا م ہوگا؟نیزکیا وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ اپنے آدمی مقرر کردے کہ وہ قیمت بڑھانے کے لیے بولی بولتے رہیں ،یہاں تک کہ اس کے حسب منشا مال کی قیمت موصول ہوسکے؟

رشوت اور بخشش

موجودہ حالات اور موجودہ ماحول میں کیا مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں بھی رشوت جائز ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشوت کی ایک جامع تعریف بھی بیان کردیجیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس قسم کے معاملات رشوت کی تعریف میں آتے ہیں ؟

رشوت دینے کی مجبوری

ریلوے اسٹیشنوں سے جب مال کی بلٹیاں چھڑوانے جاتے ہیں تو ریلوے کے کلرک رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں ، جسے اگر رد کیا جائے تو طرح طرح سے نقصان اور تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ایسے حالات میں ایک مومن تاجر کیا کرے؟

رشوت وخیانت کو حلا ل کرنے کے بہانے

سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبر واکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں ، انھیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا، اس لیے یہ حلال ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے،اسے بھی اپنی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائزسمجھتے ہیں ۔میں اپنے حلقہ ٔ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔

آڈٹ افسروں کو پارٹیاں دینا

کیاایسے افسروں کو ٹی پارٹیاں دینا بھی رشوت میں شمار ہوگا جن کو حکومت کسی ایک فرد یا جماعت کے کام کی جانچ پڑتال کے لیے وقتی طور پر مقرر کرتی ہے؟ یہ لوگ تو غالباً اصطلاحی افسر کی حیثیت نہیں رکھتے، پھر ان کی خاطر ومدارات میں کیا حر ج ہے؟