کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ ازروے قانون یہ تسلیم کیا جائے کہ معاہدۂ ازدواج میں یہ شرط ہو سکتی ہے کہ عورت کو بھی اعلانِ طلاق کا وہی حق حاصل ہو گا جو مرد کو حاصل ہے؟
زمرہ: نکاح و طلاق و خلع و ازدواجی معاملات
ہمارے معاشرے کے بعض طبقوں میں دختر فروشی کا مکروہ رواج پایا جاتا ہے۔ اس کے انسداد کے لیے آپ کے نزدیک کس قسم کا اقدام مناسب ہو گا تاکہ والدین یا ولی لڑکی کو نکاح میں دیتے ہوئے رقمیں وصول نہ کر سکیں ؟
کیا آپ کے نزدیک مناسب ہو گا کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کیا جائے اور نکاح کے تمام اندراجات اس کے مطابق ہوں ؟
طلاق
اگر کوئی شوہر بیک وقت تین طلاقیں دے تو کیا آپ کے نزدیک اسے قطعی طلاق مغلّظہ شمار کیا جائے یا تین طُہروں میں تین طلاقوں کے اعلان کے بغیر جیسا کہ قرآن میں ہدایت کی گئی ہے یہ مغلّظہ شمار نہ ہو؟
کیا طلاقوں کا رجسٹری کرانا لازمی قرار دیا جائے؟
اگر طلاق کی رجسٹری نہ ہو تو آپ کے نزدیک اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
کیا مختلف علاقوں کے لیے مصالحتی مجالس مقرر کی جائیں اور کسی طلاق کو اس وقت تک صحیح تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ فریقین ان مجالس کی طرف رجوع نہ کر چکے ہوں جن میں زوجین کے خاندانوں کی طرف سے بھی ایک ایک حَکَم شامل ہو؟
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
ترجمان القرآن مارچ۱۹۶۲ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ،ان میں سے پہلے ہی مسئلے میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ’’ قرآن نکاح کا لفظ بول کر صرف عقد مراد لیتا ہے‘‘یا قرآن اسے اصطلاحاً صرف ’’عقد کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘ یہ قاعدۂ کلیہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں کے غالب فقہی مسلک یعنی حنفیہ کے نزدیک ناقابل تسلیم ہے بلکہ جمہور اہل تفسیر کی تصریحات کے بھی منافی ہے۔تعجب ہے کہ ایک ایسی بات جس کے حق میں شاید ہی کسی نے راے دی ہو،آپ نے قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان فرما دی ہے۔
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
کیا عائلی قوانین کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟متذکرۂ صدر قوانین کی روسے تو طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کچھ خاص شرائط عائد کردی گئی ہیں ؟
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
علماے احناف اور علماے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلاولی کی صورت میں بلاتأمل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں ، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں ۔