ریاستی مظالم کے شکار لوگوں کو چھڑانے کے لیے زکوٰۃ کا استعمال

ادھر کچھ عرصے سے مسلم نوجوانوں کی بڑی تعدادریاستی مظالم کا شکار ہے۔ انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور ان پر بہت سے مقدمات لاد دیے جاتے ہیں ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جسے فراہم کرپانا بسا اوقات ان مظلومین کے لیے ممکن نہیں ہوپاتا۔ کیا اس کام میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے؟

سفر ِ حج کے لیے جمع کی گئی رقم پر زکوٰۃ

میں نے گزشتہ سال سفر ِ حج کے لیے پیسہ اکٹھا کیا تھا، مگر میرا نام نہیں آیا۔میں نے وہ پیسہ محفوظ کردیا تھا۔ اب اس پر ایک سال گزر گیا ہے۔ کیا مجھے اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

انبیا وصلحاکے حدودو اختیارات

ہمارے یہاں کی جامع مسجد میں امام صاحب نماز جمعہ سے قبل بہت تفصیل سے خطبہ دیتے ہیں ، جس میں وہ دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھاتے ہیں اور قرآنی آیات اوراحادیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں ۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نفع ونقصان کےمعاملے میں اپنے رسول کوبھی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح ہدایت کا معاملہ بھی اس نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ کسی کوبھی، حتیٰ کہ کسی رسول یا کسی ولی کوبھی اس کا اختیار نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم بھی اپنے ساتھ خاص رکھا ہے ۔ کل کیا ہوگا؟ اس کی کسی انسان کو خبر نہیں ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا ہے : ’’ یہ نہ کہو کہ میں یہ کام کل کروں گا ، مگر ان شاء اللہ کہو ‘‘۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں شرک کرنے والوں نے جن جن کومعبود بنایا ہوگا اورانہیں خدا ئی میں شریک کیا ہوگا ، روزِقیامت اللہ تعالیٰ انہیں ان کے روٗبروٗ کھڑا کرے گا اور پوچھے گا کہ کیا انہوں نے اپنے پیروکاروں کواس کا حکم دیا تھا ؟ ان میں انبیاء بھی ہوں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اور صالحین بھی۔ سب برأ ت کا اظہار کریں گے۔
نماز جمعہ کے بعد بعــض لوگوں کے درمیان چے می گوئیاں ہونے لگیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں کوئی اختیار نہیں ہے ، اسی طرح ان کی غیب دانی کا انکار کرنا ان کی توہین اوران کے حق میں گستاخی ہے۔ اسی طرح انبیاء وصلحاء کوان کے پیروکاروں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے وضاحت طلب کرنا بھی ان کی توہین ہے۔ اس لیے امام صاحب کوایسی بات نہیں کرنی چاہیے اور انہوں نے جوکچھ کہا ہے اس پر معذرت طلب کرنی چاہیے۔
بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں ، کیا امام صاحب نے خطبہ میں جوباتیں کہی ہیں وہ غلط ہیں اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔

کعب احبار کون ہیں ؟

ایک کتاب میں بہت سےصحابہ کرام کی حکایات جمع کرکے پیش کی گئی ہیں ۔ اس میں حضرت کعب احبار کے بارے میں تحریر ہے:
’’ کعب احبار کہتے ہیں : ا س ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میں اللہ کے خوف سے رؤوں اورآنسو میرے رخسار پر بہنے لگیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کروں ۔‘‘ ( حکایاتِ صحابہ ص ۳۹)
ایک دوسری کتاب میں لکھا گیا ہے :
’’کعب احبار سے نقل کیا گیا ہے کہ جوکثرت سے اللہ کا ذکر کرے وہ نفاق سے بری ہے ۔‘‘ (فضائل ذکر، ص ۵۵)
براہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حضرت کعب احبار کیا وہی ہیں جن کا تذکرہ غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانےوالوں میں ہوا ہے، یا یہ کوئی اورصحابی ہیں ؟

میراث کے چند مسائل

ایک صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ ورثہ میں صرف ان کی ماں ، تین بھائی اورچار بہنیں ہیں ۔ براہ کرم بتائیں ، میراث کیسے تقسیم ہوگی؟ فرض کیجئے، مرحوم نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار (1,86,000) روپے چھوڑے ہیں ۔ ہر ایک کوکتنی رقم ملے گی؟

میراث کے چند مسائل

میرے شوہر کا ابھی چندماہ قبل انتقال ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے والدین سے میراث میں کچھ نہیں پایا تھا ۔ میں نے محنت اورجاں فشانی سے سلائی کڑھائی کرکے ان کی مالی مد د کی اوران کے کاروبار کو تقویت پہنچائی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں خوب برکت دی ۔ انتقال سے ایک سال قبل انہوں نے ایک پلاٹ خریدا تھا ، جس کا بیع نامہ میر ے نام سے کروایا تھا ۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے ۔ میری ساس ابھی بہ قیدِ حیات ہیں ۔ میرے شوہر نے وعدہ کیا تھا کہ اللہ نے اگر میرےحالات ٹھیک کیے تومیں تم کومکان بنوا کردوں گا ۔ میرے مرحوم شوہر کے بھائی مجھے اس مکان سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں جس میں میں مرحوم کے ساتھ رہتی تھی۔
بہ راہ ِکرم اس معاملے میں میری رہ نمائی فرمائیں ۔ مرحوم شوہر کی وراثت میں میرا کتنا حصہ ہے ؟

میراث کے چند مسائل

میرے والد صاحب نے میری والدہ کوایک پلاٹ بہ طور مہر دے دیا تھا اوراسے ان کے نام رجسٹرڈ کرادیا تھا ۔ والدہ کا انتقال تقریباً بارہ سال قبل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد والدصاحب نے دوسری شادی کرلی۔ میری سوتیلی ماں سے کوئی اولاد نہیں ہے ۔ دو سال قبل والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ۔ ہم دو بھائی اوردوبہنیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں کہ ہمارے درمیان وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟

میراث کے چند مسائل

ہمارے ایک عزیز کا ابھی انتقال ہوا ہے ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، صرف بیوی ہے ۔ اس کے علاوہ حقیقی بھائیوں کی اولاد میں سے دو بھتیجے اورنوبھتیجیاں ہیں اورباپ شریک سوتیلے بھائیوں کی اولاد میں سے آٹھ بھتیجے اورچار بھتیجیاں ہیں ۔ ان کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟

میراث کے چند مسائل

ہمارے جاننے والے ایک صاحب کا حال میں انتقال ہوا ہے ۔ ان کے کئی لڑکے اورلڑکیاں ہیں ۔ ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ میں نے ابّا کی زندگی میں جتنی چیزیں انہیں دی ہیں ، مثلاً پلنگ، اے سی ، سوٹ کیس وغیرہ وہ سب میری ہیں ۔ وہ ترکہ میں تمام بھائیوں بہنوں میں تقسیم نہ ہوں گی۔ابّاکی صرف وہ چیزیں ترکہ میں شمار ہوں گی جوانہوں نے اپنی کمائی سے خریدی ہوں ۔ کیا یہ بات درست ہے؟

میراث کے چند مسائل

ایک پلاٹ خریدا گیا، جس میں ماں نے چالیس فی صد اور ایک بیٹے نے ساٹھ فی صد رقم لگائی۔ پلاٹ کی رجسٹر ی ماں کے نام سے ہوئی۔ ماں کے انتقال کے بعد جب ان کاترکہ تقسیم ہونے کی بات آئی تو رقم لگانے والے بیٹے کہہ رہے ہیں کہ اس پلاٹ کا ساٹھ فی صد حصہ میرا ہے ، اس لیے کہ اتنی رقم میں سے لگائی تھی۔ ماں کی محبت میں میں نے ان کےنام رجسٹری کرادی تھی ۔ دوسرے بھائیوں بہنوں کا حصہ اس پلاٹ کے صرف چالیس فی صد حصہ میں ہوگا۔ کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟