میراث کے چند مسائل
ایک صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں ،بیٹے نہیں ہیں ، ہاں بھتیجے ہیں ۔ اہلیہ کا انتقال پہلے ہوچکا تھا۔ ان کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
ایک صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں ،بیٹے نہیں ہیں ، ہاں بھتیجے ہیں ۔ اہلیہ کا انتقال پہلے ہوچکا تھا۔ ان کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
ابھی حال ہی میں ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی اہلیہ زندہ ہیں ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ بھائی بہن بھی نہیں ہیں ۔ ہاں بھتیجے، بھتیجیاں ، بھانجے، بھانجیاں ہیں ۔ ان کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے گی؟
ایک صاحب کے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، صرف ایک بیٹی تھی۔ انھوں نے اس کی شادی کردی۔ اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ انھوں نے اپنی پوری جائیداد اپنی زندگی میں اپنے نواسے کے نام کردی۔ ان کے بھتیجوں کو اس کا علم ہوا، مگر انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ان صاحب کے انتقال کے بعد ان کا نواسہ پوری جائیداد پر قابض ہے۔ اب اسے یہ خلجان ہے کہ نانا کی مکمل جائیداد پراس کا قبضہ کہیں شرعی اعتبار سے ناجائز تو نہیں ہے؟ ایسا تو نہیں کہ مرحوم کے بھتیجوں کا بھی اس میں کچھ حصہ بنتا ہو؟ بہ راہِ کرم اس خلجان کو دور فرمائیں ۔
ایک شخص کے دولڑکے اورایک لڑکی ہے۔ اس نے تمام بچوں کی شادی کردی۔ لڑکی اپنی سسرال چلی گئی۔بڑا لڑکا اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا ہے۔ گھر کی تمام ضروریات اسی کی آمدنی سے پوری ہوتی ہیں ۔ چھوٹے لڑکے نے شہر جاکر ملازمت کرلی اور اپنی ضروریات خود پوری کیں ۔ ان کے لیے گھریا والد صاحب سے کسی طرح کی کوئی مالی مدد نہیں لی۔ دونوں لڑکوں میں اگر کبھی ضرورتاً لین دین ہوا تو بہ طور ِ قرض ہی ہوا۔
ایک بار اس شخص نے چھوٹے لڑکے کو شہر میں دکان خرید نے کے لیے رقم دی، لیکن وہ دکان نہیں چلاسکا اور اس سے کوئی منافع نہیں ہوسکا، بلکہ نقصان ہی ہوتا رہا، چنانچہ ڈھائی ، تین سال بعد والد کی ہدایت پراس نے دکان فروخت کردی اوراصل رقم مع منافع کے لوٹادی۔
ان صاحب نے کھیتی باڑی کی زائد آمدنی سے جائیداد خریدی۔ اس کا بیع نامہ اپنے نام کرانے کے بجائے دونوں لڑکوں کے نام کرایا، اس میں لڑکی کو شامل نہیں کیا۔ ایک لڑکے نے انھیں توجہ دلائی کہ بیٹی کو محروم کرنا صحیح نہیں ہے۔ آپ اس کی اصلاح کردیں ۔ جتنی زمین بیٹوں کے نام کرائی ہے، اسی کے مطابق بیٹی کا جتنا حصہ بنتا ہے ، اس کے نام بھی کرادیں ۔ اس پر انھوں نے کہا کہ تم لوگ درست کرلینا۔ چند مہینے کے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ :
(۱) والد صاحب نے جو زمین خرید کر صرف بیٹوں کے نام بیع نامہ کرایا، اس میں بیٹی کا بھی حصہ ہے یا نہیں ؟
(۲) چھوٹے بیٹے نے شہر میں جو پلاٹ خریدا اور اس پر مکان بنایا، کیا اس میں بڑے بھائی کاشرعاً حصہ بنتا ہے؟
ہمارے علاقے میں ایک صاحب کافی مال ودولت اورجائیداد کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے کاروبارمیں اپنے چھوٹے بھائی کو بھی شریک کرلیاتھا، جس نے ان کے کاروبار کو ترقی دینے میں خوب محنت کی تھی ۔ اس کا وہ اعتراف کرتے تھے۔ انہیں اپنے بھائی سے بہت محبت اور انسیت تھی۔ یہ صاحب بہت مخیر تھے۔ انہوں نے وراثت میں ملاہوا مکان رہائش کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کودے دیاتھا، جس سے کبھی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کے انتقال تک (۳۵سال) وہ ان کے چھوٹے بھائی کے پاس ہی رہا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سے بھی کبھی اس مکان کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ دس بیگھے آراضی کا ایک آم کا باغ تھا، جس کی ہرفصل کی آمدنی وہ ایک دینی جماعت کو دیا کرتے تھے اور دودکانوں کے کرایے کی آمدنی وہ اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے کو دیتے تھے۔
ان صاحب نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے ورثاء میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے چار بیٹے تھے۔ انہوں نے تقسیم کی جانے والی جائیداد کی فہرست تیارکی اوراسے ایک دو رکنی کمیٹی کے حوالے کیا اورکہا کہ اسے پانچ حصوں میں تقسیم کردے۔چارحصے ان کے بیٹوں کے اورپانچواں حصہ انہوں نے اپنا لگوایا۔ جائیداد کی اس تقسیم میں انہوں نے مذکورہ بالا تین چیزیں ( وہ مکان جوبھائی کودےدیاتھا، آم کا باغ اوردودکانیں ) شامل نہیں کیں ۔
ان صاحب کے انتقال کو پندرہ سال گزرچکے ہیں ۔ اب ان کے لڑکے اپنے چچا سے مکان کی واپسی یا اس کی قیمت کی ادائیگی کامطالبہ کررہے ہیں ۔ نیز ان کے ایک لڑکے نے اس پانچویں حصے پر قبضہ کررکھا ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے پاس رکھا تھا اوراس میں اپنے بھائیوں کا حصہ لگانے پر آمادہ نہیں ہے۔
براہِ کرم واضح فرمائیں ۔ کیا مرحوم کے لڑکوں کا اپنے چچا سے مکان کی واپسی کا مطالبہ کرنا درست ہے؟
ایک صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ان کے وارثوں میں صرف ان کی بیوی ، ایک بہن،ایک چچازاد بھائی اور چار چچازاد بہنیں ہیں ۔ وہ لا ولد تھے ۔ براہ ِ کرم بتائیں ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
ایک صاحب کا ابھی چند دنوں قبل انتقال ہوا ہے۔ ان کے ورثاء میں ماں ، بیوی، ایک بیٹی ، دو حقیقی بھائی ، دو حقیقی بہنیں اور ایک باپ شریک بھائی زندہ ہیں ۔ والد کا انتقال ہوچکا ہے ۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ ان کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
ہمارے والد صاحب کو انتقال ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں ۔ ہم نے ان کے انتقال کے بعد میراث تقسیم کردی تھی۔ ایک درخت بچا تھا جو ہمارے درمیان مشترکہ تھا اور سب لوگ اس کا پھل کھاتے تھے۔ گزشتہ دنوں وہ سوکھ گیا۔ ہم نے اسے فروخت کردیا، جس سے ہمیں آٹھ ہزار روپے ملے۔ ہماری والدہ زندہ ہیں ۔ ہم تین بھائی اورایک بہن ہیں ۔ اس رقم کو کیسے تقسیم کریں ؟ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔
میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے ۔ میری چھ لڑکیاں اورایک لڑکا ہے۔ بہ راہ کرم بتائیے کہ ان کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟
ایک صاحب کے دو بچے تھے: ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کے پاس ایک مکان تھا۔ اسے انھوں نے پندرہ لاکھ روپے میں فروخت کرکے ایک دوسرا مکان خریدا، جس کی مالیت پچیس لاکھ روپے تھی۔ دس لاکھ روپے ان کے لڑکے نے لون لے کر شامل کیے، جسے بعد میں اس نے ادا کردیا۔ ابتدا میں مکان کی رجسٹری ان صاحب کے نام سے ہوئی، مگر چند سال کے بعد ان کی زندگی ہی میں ان کے لڑکے نے اسے اپنے نام کرالیا۔
کیا ان صاحب کے انتقال کے بعد اُس مکان میں ان کی لڑکی کا کچھ حق بنتا ہے ؟ واضح رہے کہ دوسرا مکان خریدنے میں ان صاحب کے پندرہ لاکھ اور ان کے لڑکے کے دس لاکھ روپے لگے تھے۔ وہ اپنی زندگی میں بیٹے سے وراثت دینے کی بات بھی کرتے تھے، مگر ان کے بیٹے نے کسی طرح ان کی زندگی ہی میں مکان اپنے نام کرالیا تھا۔