کیا رسول اللہ ﷺ کا مشن لوگوں کو بہ جبر مسلمان بنانا تھا؟

ذیل میں صحیح مسلم کی ایک حدیث درج کر رہا ہوں ، اس کا ظاہری مفہوم مجھے اسلام کی مجموعی تعلیمات سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو رہا ہے:
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں ، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی شہادت دیں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ وہ یہ شرائط تسلیم کرلیں تو ان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہوجائیں گے۔ الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کردیے جائیں ، رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمّے ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۲۹)
اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا تھا کہ آپؐ جہاد و قتال کے ذریعے مشرکین کو مسلمان بنائیں ۔ اس کی تشریح میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ اتمام حجت کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ جو مشرکین ِعرب اسلام قبول نہ کریں انھیں قتل کردیا جائے۔ ایسی صورت میں اسلام دشمن عناصر کے اس الزام کا جواب کس طرح دیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے اوّلین اور اہم ترین دور میں ہی اسلام کو بہ زور شمشیر پھیلانے کا حکم دیا گیا تھا اور پیغمبرِ اسلام نے جنگ اور قتال کے ذریعے مشرکین کو مسلمان بنایا تھا؟ اس سلسلے کی چند قابل غور باتیں یہ بھی ہیں :
(۱) کیا دور نبوی میں مذکور حدیث کے حکم کے مطابق کوئی جہاد کیا گیا تھا، جس میں مشرکین کو جہاد (بہ معنی قتال) کے ذریعے مسلمان بنایا گیا ہو؟
(۲) کیا فتح مکہ کے بعد تمام مشرکین نے اسلام قبول کرلیا تھا؟ اور جو دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، وہ سب قتل کردیے گئے تھے؟
(۳) کیا تاریخ و سیرت کی کتابوں میں ان صحابۂ کرام کے نام ملتے ہیں ، جنھوں نے تلوار کی نوک پر اور موت کے خوف سے اسلام قبول کیا تھا؟
(۴) فتح مکہ کے بعد مشرکین عرب کے سلسلے میں حضوؐر کو دو احکام دیے گئے۔ ایک یہ کہ انھیں جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے اور دوسرے یہ کہ وہ آئندہ سال کعبۃ اللہ کے پاس نہ آنے پائیں ۔ اگر اسلام قبول نہ کرنے والے مشرکین کو قتل کردینے کا حکم تھا تو پھر انھیں جزیزۃ العرب سے نکال دینے اور کعبۃ اللہ کے پاس نہ آنے دینے کا کیا مطلب ہے؟
اس حدیث کے آخری الفاظ ہیں : وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ (رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمّے ہے) اس کا کیا مطلب ہے؟
قرآن کریم کی بہ کثرت آیات میں کہا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ، جو چاہے قبول کرے جو چاہے نہ قبول کرے۔ پیغمبر کی شدید خواہش رہتی تھی کہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں ، اسے زیادہ سے زیادہ لوگ قبول کرلیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو تنبیہہ کی گئی کہ آپؐ کا کام صرف دعوت پہنچا دینا ہے، اسے کون قبول کرتا ہے اور کون نہیں قبول کرتا، اس سے آپ کو غرض نہیں ۔ ان آیات اور درج بالا حدیث میں تضاد اور اختلاف نظر آ رہا ہے۔ دونوں میں کس طرح تطبیق دی جائے گی؟ بہ راہ مہربانی اس کا صحیح مفہوم واضح کیجیے۔

ضعیف اور موضوع احادیث

ہمارے روایتی مذہبی لٹریچر میں ، بالخصوص وہ لٹریچر جو خانقاہی، صوفیانہ، بریلوی اور بعض دیگر حلقوں میں زیادہ پڑھاجاتا ہے، درج ذیل حدیثوں کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے:
لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَکَ۔ کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْنِ۔ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ حدیثیں صحیح ہیں ؟ سند، روایت، درایت، اور حدیثوں کی صحت و عدمِ صحت کے تعلق سے دیگر معیارات کے مد ِ نظر ان کی صحت ثابت شدہ ہے یا نہیں ؟ اگر یہ حدیثیں اپنے الفاظ اور ظاہری مفہوم کے اعتبارسے درست اور مبنی برحقیقت ہیں تو ان کا صحیح مفہوم و مدلول اور مقصود ِ بیان کیا ہے؟
بہ راہِ کرم جواب سے نوازیں ۔

حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان

’کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ یہ حدیث مجھے ’موضوع‘ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ اس لیے ایسی غیر معتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔

ایک فرقہ کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، بقیہ لوگ جہنمی ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث پڑھ کر میں بہت تشویش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ کیا امت کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور صرف چند لوگ جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہاں ایک مولانا صاحب سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ حدیث کا اتنا حصہ تو صحیح ہے جس میں امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی بات کہی گئی ہے۔ لیکن اس کا اگلا حصہ جس میں صرف ایک فرقے کے جنتی اور دیگر فرقوں کے جہنمی ہونے کی بات کہی گئی ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ جن روایتوں میں یہ الفاظ ہیں ان کی سندیں ضعیف ہیں ۔
بہ راہِ کرم اس کی وضاحت فرما دیں ۔ کیا مولانا صاحب کی بات صحیح ہے؟

گم راہ فرقے اور سزائے جہنم

ایک سوال کے جواب میں آپ نے ’ایک فرقے کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے‘ کے زیرِ عنوان جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ الجھن پیدا کر رہا ہے۔ آپ نے جو احادیث تحریر فرمائی ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ایک فرقہ ہی جنت میں جائے گا، باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے، لیکن آگے آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں ۔‘‘ پوچھا گیا سوال صاف نہیں ہوا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جن روایتوں میں یہ زائد جملہ ہے ’’صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، دیگر تمام فرقے جہنمی ہوں گے‘‘ وہ ضعیف ہیں ۔ اسی وجہ سے انھیں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔
یہ بہتر تہتر فرقوں کا چرچا کچھ جماعتوں اور مسلکوں میں عام ہو رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی روٹی پر دال کھینچ رہا ہے۔ اس لیے التماس ہے کہ اس حدیث کے سلسلے میں ہونے والے اشکالات دور فرمائیں ۔

رسول اللہ ﷺ کی طبعی نظافت

آپ نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ‘ (شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی نومبر ۲۰۰۹ء) میں رسول اکرم ﷺ کی خانگی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام آپؐ کی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے۔ اس لیے حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہو رہی ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

بعض احادیث پر اشکالات

دو احادیث پر کچھ اشکالات پیدا ہورہے ہیں ، بہ راہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں :
(۱) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد)
اس حدیث پر درج ذیل اشکالات پیدا ہو رہے ہیں :
الف: یہ حدیث اسلام کے تصور ِ توحید کے منافی ہے۔
ب: ہندوؤں کے یہاں عورت کے بارے میں تصور ہے کہ وہ شوہر کی داسی ہے ۔ پتی ورتا ہونا اس کا دھرم ہے اور پتی ورتا کے معنیٰ یہ ہیں کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔ اس حدیث سے بھی یہی تصور ابھرتا ہے۔
ج: یہ حدیث قرآن کی اس تعلیم کے خلاف ہے: ’’اللہ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔‘‘ (النساء: ۱)
د: اس حدیث سے عورت کی تذلیل و توہین معلوم ہوتی ہے۔
(۲) ایک حدیث ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں : ’’میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں ۔‘ آپؐ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا: ’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ اس سے میرا نکاح کرادیجیے۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے؟ (یعنی اسے مہر میں کیا دوگے؟)‘ اس نے کہا: ’کچھ بھی نہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاکر تلاش کرو، کچھ نہیں تو لوہے کی انگوٹھی سہی۔‘ اس نے جاکر ڈھونڈا اور کچھ دیر کے بعد واپس آکر کہا۔ ’حضوؐر! مجھے کوئی چیز نہیں ملی، یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی مہیا نہیں کرسکا ہوں ، البتہ میرا یہ تہبند حاضر ہے۔ اس عورت کو میں آدھا تہبند دے دوں گا۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’تیرا یہ تہبند کس کام کا؟، اگر اسے تو پہنے گا تو تیری بیوی برہنہ ہوجائے گی اور اگر اسے اس نے پہنا تو پھر تم کیا پہنوگے؟‘‘ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا: ’تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟‘ وہ بولا: ’ہاں ! فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔‘ آپؐ نے فرمایا: ’جاؤ، میں نے قرآن کی ان سورتوں کے بدلے اس عورت سے تمھارا نکاح کردیا۔‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث پر کئی اشکالات وارد ہوتے ہیں :
۱- عورت نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کیا تھا۔ آپؐ کی خاموشی کے بعد حاضرین میں سے کسی شخص کا خواہش نکاح ناقابل فہم ہے۔
۲- عورت کی رائے معلوم کیے بغیر رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے کو آگے بڑھانا کیسے ممکن ہے؟
۳- مہر جو مرد پر فرض ہے اور عورت کا حق ہے، اس کو لوہے کی انگوٹھی جیسی حقیر چیز پر محمول کرنے کی کیا شریعت اجازت دیتی ہے؟
۴- اس شخص کا مہر میں تہبند پیش کرنا، اس سے زیادہ بیہودہ مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟
۵- اگر موصوف اس قدر مفلس تھے تو وہ اپنی بیوی کا نفقہ کس طرح ادا کرسکتے تھے؟ ایسے شخص کے لیے تو اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ: ’’جو شخص نکاح کی ذمے داریاں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیوں کہ یہ اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۶- کیا ان حالات میں مہر مؤجّل پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا؟

تشخص کا مسئلہ

ہمارے ملک اور دیگر ممالک میں بھی قبول ِ اسلام کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔ کوئی شخص اسلام قبول کرتاہے تو اپنا سابقہ تشخص بدل کر اسلامی نام، اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرلیتا ہے۔ بہ راہ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں ۔ ایسا کرنا ضروری ہے یا یہ ایک غیر ضروری اور ناپسندیدہ عمل ہے؟ ایک مولانا صاحب ہیں جو اس کی بہت شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عمل نہ صرف غیر ضروری، بل کہ نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کا تشخص نہ بدلیں تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتے نہیں اور بہ آسانی اس میں اشاعت ِ اسلام کا کاانجام دے سکتے ہیں ۔ دلیل میں وہ سورۂ مومن میں مذکور ’مرد مومن‘ کا کردار پیش کرتے ہیں ۔ وہ مرد مومن حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا تھا، مگر حضرت موسیٰ نے اس سے نام اور ظاہری تشخص بدلنے پر اصرار نہیں کیا اور وہ اپنے سابقہ نام اور سابقہ وضع قطع کے ساتھ دربار ِ فرعون کا ممبر بنا رہا۔ اس بنا پر وہ ایک خاص موقع پر دربار فرعون میں حضرت موسی کی حمایت میں ایک اہم رول ادا کرنے کے قابل ہوسکا۔ ان خیالات کو پڑھ کر میں ایک عجیب ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ دعوتی کام کے سلسلے میں آج تک جو کوششیں ہوئی ہیں ، کیا وہ سب غلط تھیں ؟ غیر مسلموں میں جو کام ہو رہا ہے، کیا وہ بھی غلط انداز میں ہو رہا ہے؟ بہ راہ کرم مفصل اور اطمینان بخش جواب سے نوازیں ۔

معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت یزید کی سربراہی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماہ نامہ زندگی نو، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک مضمون حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی سیرت پر شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی ایک عبارت (ص: ۷۱) سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’حضرت یزید بن معاویہؓ کی سربراہی میں قسطنطنیہ کی اس مہم میں بھی انھیں شرکت کا شرف حاصل ہے، جس میں شریک رہنے والوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ البتہ زمانۂ فتنہ (جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ) میں وہ الگ تھلگ رہے اور کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جنگ ِ قسطنطنیہ، جس میں یزید مذکور شریک تھا، وہ جنگ نہیں ہے جس میں شریک مسلمانوں کو جنت یا بخشش و نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ پھر بھی اگر مضمون نگار کا خیال صحیح ہے تو بہ راہ ِ کرم دلائل سے وضاحت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ بہ راہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا یزید صحابی تھا اسی لیے مضمون میں اسے ’حضرت یزید بن معاویہؓ ‘لکھا گیا ہے؟ یعنی اللہ اس سے راضی ہوا۔ کیا زمانۂ فتنہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہی کا زمانہ تھا؟ اس کے بعد کا زمانہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو کیا زمانہ امن و سلامتی و ہدایت کے اعتبار سے راہِ نبوت و خلافت ِ راشدہ پر لوٹ آیا تھا؟ یعنی اموی و عباسی زمانہ زمانۂ فتنہ نہ تھا۔ اگر حضرت معاویہؓ کا دور، جس میں یزید بھی قسطنطنیہ کی جنگ میں بہ طور سربراہ شریک تھا، زمانۂ فتنہ نہ تھا اور فتنے کے زمانے سے نکل آیا تھا تو پھر اسے خلافت راشدہ کے دور سے تعبیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر دونوں زمانوں میں فرق تھا، جس کی وجہ سے دورِ خلافت ِ معاویہ کو خلافت ِ راشدہ کا دور نہیں قرار دیا جاتا تو وہ فرق کیا تھا؟
کیا جنگ ِ قسطنطنیہ ہی وہ پہلی بحری جنگ ہے جس کے متعلق ہمارے مقررین و مصنفین یہ فرماتے ہیں کہ پہلی بحری جنگ میں جو لوگ شریک ہوں گے اللہ نے انھیں بخش دیا۔ اس لیے ’حضرت یزید رضی اللہ عنہ‘ بھی بخشے گئے؟ کیا قسطنطنیہ میں یہی ایک جنگ ہوئی جس میں یزید بن معاویہ شریک ہوا تھا یا سربراہ تھا؟
ایک صاحب اپنی ایک مشہور ترین کتاب میں کعب احبار کو باقاعدہ ’کعب احبار ؓ ‘لکھتے ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی صحابی تھے۔ کیا یہ صحابی تھے؟ اس لیے شناخت کے لیے ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جانا چاہیے، جیسا کہ مضمون مذکور میں یزید بن معاویہ کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی وضاحت سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔

صحابۂ کرامؓ کے کرداروں پر مبنی ادا کاری

میرے موضع میں کچھ حضرات ویڈیو ٹیپ لائے ہیں ، جن میں جنگ ِ بدر اور کچھ دوسرے غزوات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ صحابۂ کرامؓ دکھائے گئے ہیں ۔ البتہ حضور ﷺ کی شبیہ دکھانے سے احتراز کیا گیا ہے۔ آواز سنائی گئی ہے۔ لوگ بڑی عقیدت سے اسے دیکھتے ہیں ۔ کیا ایسے کیسٹ بنانا اور دیکھنا مناسب ہے؟ جب کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ ایسی منظر کشی میں کیسٹ بنانے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کی آمیزش کرلے۔
بہ راہِ کرم اس مسئلے پر مدلل اظہار فرمائیں ۔ کیا صرف حضوؐر کی شبیہ کو دکھانا ہی قابل ِ اعتراض ہے یا صحابۂ کرامؓ کی منظر کشی بھی نہیں ہونی چاہیے؟