فقہ مالکی میں نمازمیں دورانِ قیام ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟
نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلما (احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے ۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں :
۱- احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں ۔ قدیم ترین مجموعۂ احادیث غالباً خود امام مالک ؒ کا مرتب کردہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’مؤطا ‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲- امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری ۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے ۔ انہوں نےمدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتےہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالکؒ کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے ؟
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔