مسجد میں دوسری جماعت کا حکم
اگر مسجد میں نماز ہوگئی ہو تو کیا اس میں دوسری جماعت کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو دوسری جماعت کس جگہ کرنی چاہیے؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
اگر مسجد میں نماز ہوگئی ہو تو کیا اس میں دوسری جماعت کی جا سکتی ہے؟ اگر ہاں تو دوسری جماعت کس جگہ کرنی چاہیے؟
:کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک مسجدیں بند تھیں ۔اب حکومت کی طرف سے بعض شرائط کے ساتھ انہیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بعض علاقوں میں اب بھی نمازیوں کی تعداد کو محدود رکھنے کا حکم دیا جارہا ہے۔کیا اس صورت میں ایک نماز کے لیے کئی جماعتیں کی جاسکتی ہیں ؟
ام طورسے فرض نمازکے بعد اجتماعی دعامانگنے کا رواج ہے۔ کیا اس موقع پر مقتدی الگ سے اپنی دعامانگ سکتا ہے؟
ایک خاتون نے عورتوں کی ایک مجلس میں نماز پڑھنےکا طریقہ بتایا تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر جولوگ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے ہیں اور دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھتے ہیں وہ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتے ہیں ، اس لیے کہ ان کی نماز وتر مغرب کی نماز کے مشابہ ہوجاتی ہے۔
بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ ہم اب تک وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح پڑھتے آئے ہیں ۔ کیا اس طرح پڑھنا غلط ہے؟
لک میں آج کل کورونا وائرس کی خطرناکی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔اس بناپرپورے ملک میں زبردست احتیاطی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ ذرائعِ مواصلات موقوف کردیے گئے ہیں ،دفاتر،تعلیمی ادارے،دوکانیں اورمالس بندکردیے گئے ہیں ،بعض ریاستوں میں مکمل اور بعض ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈائون کا اعلان کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ مذہبی اداروں اورعبادت گاہوں کو بھی بندکرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔اس صورت حال میں بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا مسجدوں میں باجماعت نمازیں محدود یا موقوف کردینا درست ہے؟کیا مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز اداکرنے کے بجائے گھروں میں ان کی ادائیگی جائز ہوگی؟
کیاموجودہ حالات میں ،جب کہ کورونا کی وجہ سے حکومت نے مسجدیں بندکروادی ہیں ، جس کی وجہ سے لوگ پنج وقتہ نمازیں گھروں میں اداکررہے ہیں ، کیا گھروں میں جمعہ کی نماز بھی اداکی جاسکتی ہے؟
بعض لوگ نذر مانتے ہیں کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنی رکعت شکرانہ نماز ادا کروں گا یا اتنی رقم خیرات کردوں گا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ سے سودے بازی معلوم ہوتی ہے۔ کیا اس طرح نذر ماننی درست ہے؟ بہ راہِ کرم نذر کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیے۔
کچھ لوگ بہت زیادہ قسم کھاتے ہیں ۔ روضۂ رسول کی قسم، خانۂ کعبہ کی قسم، باپ کی قسم۔ انھیں اس کی اہمیت کا بالکل شعور نہیں ہوتا۔ بہ راہ کرم بتائیں ، کیا ان کے علاوہ دوسروں کی بھی قسم کھائی جاسکتی ہے؟ اگر قسم پوری نہ کی جائے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟
ہمارے معاشرے میں تعویذ گنڈے کا چلن عام ہے۔ اس پر اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اکثر ہندو پاک کے کرکٹ کھلاڑی گلے میں تعویذ باندھے نظر آتے ہیں ۔ بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے تعویذ باندھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہماری عورتوں کا بھی بہت پکاّ عقیدہ ہے۔ مہربانی فرما کر صحیح رہ نمائی فرمائیں کہ اس کی دین میں کیا حیثیت ہے؟
بعض واعظین اپنے خطاب میں یہ کہتے ہیں کہ’’ اگر بندے گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ ایک اور مخلوق پیدا فرماتا اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انھیں معاف کرتا۔ بندہ جب ایک ہاتھ اللہ کی طرف بڑھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دو ہاتھ بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بندہ پیدل چل کر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے۔‘‘ اس بات پر یہ خیال گزرتا ہے کہ گناہ کی اتنی اہمیت نہیں ۔ آدمی اپنی جسارت سے کبائر اور صغائر کا مرتکب ہوسکتا ہے۔