وسوسوں کا علاج

مجھے وسوسے بہت آتے ہیں اور ایسے آتے ہیں کہ بسا اوقات خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ گناہِ کبیرہ یا شرک کے دائرے میں نہ آگیا ہو۔ میری ملازمت ایسی ہے کہ مجھے جنس مخالف سے اکثر و بیش تر ملتے رہنا پڑتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ بچایا ہوتا تو یقینا میں زنا جیسے فعل کا مرتکب ہوجاتا۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ لمحۂ آخر میں وہ مجھے ضرور اس دلدل سے بچا لیتا ہے، لیکن نگاہ کا اور کچھ فعل بد کا عمل سرزد ہوجاتا ہے۔ برائے مہربانی مجھے کوئی وظیفہ یا کوئی طریقہ ایسا بتائیے کہ میں ان دونوں افعال سے بچ جاؤں ۔

گھر سے نکلنے کے آداب

میں ایک انٹر کالج میں معلمی کے فرائض انجام دیتا ہوں ۔ ہم اساتذہ میں دینی معلومات کی کمی کے باعث بعض معاملات میں بحث و مباحثہ ہوجایا کرتا ہے۔ ایک موقعے پر ہمارے درمیان اس معاملے میں اختلاف ہوگیا کہ گھر سے نکلتے وقت داہنا پیر پہلے نکالنا چاہیے یا بایاں پیر؟ ایک مقامی عالمِ دین سے رجوع کیا گیا تو انھوں نے داہنا پیر پہلے نکالنے کی بات بتائی اور دلیل یہ دی کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرتے تھے۔ ایک دوسرے عالمِ دین نے کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مسجد اور گھر امن کی جگہ ہے، چناں چہ مسجد اور گھر سے نکلتے وقت پہلے بایاں پیر باہر نکالنا چاہیے۔ علماء کے متضاد جوابات سے ہمیں کنفیوژن ہوگیا ہے۔ بہ راہِ کرم اس سلسلے میں ہماری صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ رسول اللہﷺ کا طریقہ کیا تھا؟ ہم لوگوں کو کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟

کمیشن پر چندہ

یہاں مسجد اور مدرسے کے چندے کے لیے کمیشن سسٹم رائج ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ تنخواہ کے مقابلے میں کمیشن (جو پچیس سے پچاس فی صد ہوتا ہے) پر چندے کی وصولی زیادہ ہوتی ہے۔ کیا شرعی نقطۂ نظر سے یہ طریقہ جائز ہے؟

دینی اجتماعات کی فوٹو گرافی

آج سے بیس پچیس سال قبل جماعت اسلامی ہند میں فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے علماء اور اکابر اسے ناپسند کرتے تھے، کسی جلسۂ عام میں اگر پریس رپورٹر آجاتے تھے، ان کے پاس کیمرے ہوتے تو وہ فوٹو کھینچ لیا کرتے تھے۔ ہمارے علماء اور اکابر میں ایسے بھی تھے، جو فوٹو گرافی کروانے سے منع کردیتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو کیمرے کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے چہرے پر کسی کاپی یا کتاب کی اوٹ کرلیا کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہّ تحریکی مزاج اور تقویٰ سے کس حد تک ہم آہنگ تھا، یہ وہ جانیں ۔ یہ وہ علماء اور اکابر تھے، جو ناگزیر ضرورت سامنے آنے پر ہی فوٹو کھنچواتے تھے۔ مگر اب یعنی مولانا ابو اللیث ندویؒ کی امارت کے بعد سے فوٹو گرافی اور فوٹو کھنچوانے کی ہمارے یہاں ایک وبا سی آگئی ہے اور اس وبا کو جنم دینے اور پروان چڑھانے میں ہماری قیادت کا مؤثر رول ہے۔
قرآن حکیم، حضرت محمد ﷺ اور حقوق انسانی کے تحفظ وغیرہ عنوانات پر جماعت نے جو حلقے اور کل ہند سطح پر مہمیں چلائی ہیں ان میں تو گویا فوٹو گرافی کا ایک زبردست طوفان امڈ پڑا تھا۔ اب ہمارا کوئی بھی اجتماع، خواہ وہ ضلع کی سطح کا ہو یا صوبہ کی سطح کا، ہمارا کوئی بھی خطاب عام، خواہ کہیں بھی ہو، فوٹو گرافروں کی خدمات حاصل کیے بغیر نہیں ہوتا۔ ہمارا اسٹیج اب اتنی وسعت اختیار کر گیا ہے کہ اس پر درجہ بہ درجہ ذمہ داران کے جلوہ افروز ہونے اور فوٹو کھنچوانے کی گنجائش پیدا کرلی گئی ہے۔ ہمارے ملکی سیشن، ملّی سیشن، سمپوزیم اور سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والوں کے فوٹو (مسلم و غیر مسلم دونوں کے) پورے اہتمام کے ساتھ کھنچوائے جاتے ہیں ۔ بعد میں ان کی طلب پر اور اکثر بلاطلب ان کے پاس ارسال کیے جاتے ہیں ۔ ہمارے دفاتر میں ان فوٹوؤں کے البم قطار اندر قطار سجا کر رکھے جاتے ہیں ۔ حتی کہ خواتین کے اجتماعات میں بھی فوٹو گرافی ہوتی ہے۔
بعض ذمے داران سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ سب کیااور کیوں ہورہا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’’یہ دور سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اگرہم یہ سب نہ کریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ جائز ناجائز کی بات کیجیے تو جواب ملتا ہے کہ ’’موجودہ حالات نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کریں ۔ ہم ان سے بچنا چاہیں بھی تو نہیں بچ سکتے۔‘‘ جواب کی تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب تو ہمارے اکابر اور علماء کرام خود مرکز جماعت میں کرتے ہیں اور دوروں میں ان کے جو پروگرام ہوتے ہیں ان میں ان کی مرضی اور ہدایت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ پھر جب ہم اپنے مرکزی علماء کرام اور قائدین سے دریافت کرتے ہیں تو جواب میں ہمیں مسکراہٹ آمیز خاموشی سے سابقہ پیش آتا ہے۔ میرے نزدیک آپ بھی تحریک و جماعت کے قابلِ ذکر علماء میں سے ایک ہیں ،جن کی نظر قرآن حکیم اور سنت ِ رسولؐ پر گہری ہے، جو تحریک و جماعت کے مزاج شناس ہیں ۔ میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خود آپ کا ضمیر، آپ کا علم قرآن و سیرت اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

دینی اجتماعات میں خواتین کے لیے پروجیکٹر کا استعمال

ادارہ فلاح الدارین کے نام سے ہم ایک ادارہ چلا رہے ہیں ، جس کے تحت مختلف اوقات میں کانفرنسوں اور دینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں عورتوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہیں مخصوص نہیں ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ہم انھیں مسجد کی دوسری منزل پر بٹھاتے ہیں ۔ چوں کہ مقرر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی توجہ پروگرام سے ہٹ جاتی ہے اور مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لیے اگر پروگرام کو مؤثر بنانے کے لیے خواتین کے لیے Projectorیا L.C.D.کا انتظام کیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ مہربانی کرکے ہماری رہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔

سنت نبویؐ کا مقام

عام طور سے مقررین اور واعظین اپنے خطبوں میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں تمھارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑ کر جارہا ہوں ۔ ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری سنت۔ جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے، گم راہ نہ ہوگے۔‘‘ میرے مطالعے سے جو حدیث گزری ہے اس میں صرف ایک چیز کا ذکر ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں کہ کیا دوسری چیز ’سنت‘ کا اضافہ کسی حدیث میں آیا ہے؟

حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت

حجر اسود کے بارے میں علمی بنیاد پر اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہونے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں ۔ بہ راہ مہربانی ان کا جواب عنایت فرمائیے۔
(۱) حجر اسود کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) حجر اسود سب سے پہلے کس نبی کو کہاں اور کس طرح سے ملا تھا؟
(۳) حجر اسود کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں کس نبی نے اور کن حالات میں نصب فرمایا؟
(۴) حجر اسود سے طواف شروع کرنے کا سب سے پہلے حکم کس نبی کو دیا گیا تھا؟
(۵) بعض علماے اہل سنت، جو حجر اسود کو جنت سے اتارا ہوا پتھر نہیں مانتے اس بارے میں ان کی تحقیق اور نکتۂ نظر کیا ہے؟ اور وہ کس بنیاد پر اجماع امت اور سواد اعظم سے اختلاف کرتے ہیں ؟
(۶) مشرکین مکہ بھی حجر اسود کے عقیدت مند تھے۔ حجر اسود کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا اور وہ کس بنا پر یہ عقیدہ رکھتے تھے؟
(۷) حجر اسود سے متعلق یہ معروف اور اجماعی تصور کہ وہ جنت سے اتارا ہوا پتھر ہے، کیا عقائد میں شامل ہے؟ کیا اس سے علمی اختلاف کیا جاسکتا ہے؟ اس اختلاف سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی حرج ہوگا؟

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

ایک خلش ہے، جس نے مجھے پریشان اور بے چین کر رکھا ہے۔ وہ ہے حضور ﷺ کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ کم سنی میں شادی کرنا۔ اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں کوئی وزن اور جان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ اور نو سال کی عمر میں عرب کی لڑکی شادی کے قابل ہوجاتی ہے اور چالیس سال کے بعد ہی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ حضوؐر نے حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اور بچے بھی حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر کے بعد ہی ہوئے ہیں ۔ خود حضور ﷺ نے اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہؓ کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ عالمہ و فاضلہ تھیں ، یہ سب صحیح، لیکن ایک ایسی لڑکی، جو کہ انتہائی کم سن ہو، جو شادی کے بعد بھی گڑیوں کا کھیل کھیلتی ہو اس سے کیا شادی کرنا ضروری تھا؟ اللہ تو کسی اور خاتون کو یہ صلاحیتیں عطا کرسکتا تھا۔ سب سے بڑا اعتراض، جو حضوؐر کے خلاف کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اپنی کبر سنی کی حالت میں حضوؐر نے کیسے ایک نوسالہ لڑکی سے شادی کی اور یہ بھی کہیں درج نہیں کہ یہ اجازت صرف حضوؐر کے لیے ہے۔ اس لیے آج اگر کوئی بوالہوس بوڑھا کم سن بچی سے شادی کرتا ہے تو اسے کون روک سکے گا؟ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں یہ رواج تھا اس لیے کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا؟ مگر جو دین آخری دین تھا اور قیامت تک کے لیے تھا اس میں تو اس پر روک ہونی چاہیے تھی؟ بہ راہ کرم اس کا جواب دیں ۔