ظہور مہدی کی حقیقت

میں گزشتہ آٹھ ماہ سے دہلی کی تہاڑ جیل نمبر ۴ میں پابند سلاسل ہوں اور ایک پیچیدہ مسئلے کا شکار ہوں ۔ کسی بھی دینی حلقے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہماری جیل میں ۶۵ آدمیوں پر مشتمل پاکستانی بھائیوں کی ایک جماعت ہے، جو خود کو امام مہدی کا پیروکار بتاتے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ امام مہدی، جن کا اصلی نام ریاض احمد گوہر شاہی ہے، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ جب انھوں نے اپنے دعوے کا اعلان کیا تو پاکستانی علماء اور حکومت کے افراد ان کے دشمن بن گئے، چنانچہ انھوں نے مجبور ہوکر لندن میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان لوگوں کے بہ قول ریاض احمد گوہرشاہی (امام مہدی) کے پاس بہ راہ راست اللہ کی طرف سے تعلیمات آتی ہیں ۔ یہ لوگ خود کو طریقت کا پیرو بتاتے ہیں ، شریعت کا ان کی زندگیوں میں شائبہ تک نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ کا ذکر عام کر رہے ہیں ۔ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا نور آتا ہے اور باطن پاک ہوجاتاہے۔ دل میں نور آنے کے لیے ایمان لانا شرط نہیں ہے۔ نور کسی کے دل میں بھی آسکتا ہے، چاہے وہ ہندو ہو، سکھ ہو، یہودی ہو یا عیسائی ہو۔ ان کے بہ قول اللہ نے ازل سے ہی مومن روحیں پیدا کی ہیں ، جو ہر قوم و ملت میں ہیں ۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں حضرت آدم اوّلین انسان نہیں تھے، بلکہ ہر قوم کا اپنا اپنا آدم ہے۔ مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ اس وجہ سے الگ الگ ہیں کہ ہر قوم کا آدم الگ ہے۔ یہ لوگ خود کو ذکروالے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریاض احمد گوہر شاہی (امام مہدی) دین الٰہی کے علم بردار ہیں ۔ ان کے بہ قبول اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم کی ہے، خلافت نہیں اور امام مہدی آخری خلیفہ ہیں ۔
گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں امام مہدی کے ظہور کے سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ موجودہ دور میں یہ بہت بڑے مسئلہ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

خود نمائی اور خود ستائی کا مظاہرہ

میرے لیے جو بات انتہائی تشویش ناک اور ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دنیا پرست مصنفین کی اتباع میں ہمارے تحریکی مصنفین نے بھی اپنی ذاتی شہرت کو لازم قرار دے رکھا ہے۔ اور تو اور، نوبت بایں جا رسید کہ انھیں توجہ دلایئے اور کل آخرت میں خداوند قدوس کے حضور جواب دہی کی بات کیجیے تو ارشاد ہوتا ہے کہ ’آپ ہی کو خدا کا خوف اور آخرت کا احساس ہے، کیا ہمیں نہیں ہے؟‘
ان کی کتابوں پر ان کے تعارف میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اس میں مبالغہ آمیزی کی جاتی ہے اور تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں ۔ بعض کتابوں پر ان کے فوٹو بھی چھاپ دیے جاتے ہیں ۔
آپ فرماسکتے ہیں کہ خودستائی اور خود نمائی کی یہ تحریریں ، جن کا تم حوالہ دے رہے ہو، مصنف کے علم میں لائے بغیر شائع کردی گئی ہیں ۔ یہ کام ناشر کا ہوسکتا ہے، وہی مبالغہ آمیز طور پر اس طرح کی تحریریں شائع کرسکتا ہے۔ فوٹو شائع کرنے کا بھی ناشر ہی مجرم ہے۔ مصنف تو بے قصور اور لا علم رہتا ہے۔‘ میں تھوڑی دیر کے لیے فرض کیے لیتا ہوں کہ مصنف خود اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا۔ یہ کیا دھرا ’ناشر‘ کا ہے۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی آپ پسند نہیں کرتے کہ آپ کاکوئی رفیق آپ کی تعریف و تحسین اور قصیدہ خوانی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ اگر پسند کرتے ہیں تو معلوم یہی کرنا ہے کہ کیا قرآن و سنت میں اس کی گنجائش نکلتی ہے؟ اور دوسری اہم بات یہ کہ آپ کے نزدیک اس کی افادیت کیا ہے؟ کیا آپ کی کسی تحریر، کتاب اور تقریر کی اہمیت آپ کی اسناد اور بایو ڈاٹا کی وجہ سے ہے؟ اور اگر آپ اس رجحان اور بدعت کو غلط اور آخرت فراموشی کی علامت تصور کرتے ہیں تو کیا کسی ’ناشر‘ کی یہ جسارت اور جرأت ہوسکتی ہے کہ آپ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے؟

مکان و جائیداد کی وصیت اور تقسیم میراث

میرے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ بڑا لڑکا اور اس کی فیملی میرے ساتھ رہتی ہے۔ باقی دو لڑکے اپنا الگ الگ مکان بنوا کر رہ رہے ہیں ۔ میں نے انھیں الگ نہیں کیا ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی سے الگ رہ رہے ہیں ۔ میں ریٹائرڈ پنشنر ہوں ۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی ہیں ۔ بڑا لڑکا ہی ہمارے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ میری اہلیہ چار پانچ سال سے بیمار چل رہی ہیں ۔ بڑا لڑکا اور اس کی بیوی بچے دیکھ بھال کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہنے کی امید ہے۔ دونوں لڑکے کبھی کبھی صرف دیکھنے آجاتے ہیں ، بس۔
میرے دو کشادہ مکان ہیں ۔ میں نے مکان کا تہائی حصہ اپنی بڑی بہو کے نام وصیت رجسٹرڈ کردیا ہے۔ میں اپنے بڑے لڑکے کی مزید مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا حق ِ خدمت کے طور پر میں یہ وصیت کرسکتا ہوں کہ جب سے میرے دوسرے لڑکے الگ ہوئے ہیں اس وقت سے میرے انتقال تک وہ میرے بڑے لڑکے کو بیس ہزار روپیہ سالانہ کے حساب سے دے کر ہی وہ مکان تقسیم کریں اور اپنا حصہ لیں ۔
بہ راہ کرم درج بالا مسئلہ میں رہ نمائی فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی۔

تقسیم میراث کی اہمیت

میرے والد صاحب کا انتقال ہوئے تین سال ہوگئے ہیں ۔ والدہ الحمد للہ ابھی حیات ہیں ۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ سبھی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم سب بھائی مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔
براہ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میراث تقسیم کرنی ضروری ہے؟ نہ تقسیم کرنے پر کیا وعیدیں ہیں ؟ میراث میں کس کا کتنا حصہ ہوگا؟ ہمارے تین مکانات ہیں ۔ کیا ایک یا دو مکانات فروخت کرکے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟

میراث کے چند مسائل

ایک صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے وارثوں میں صرف ان کی بیوی، ایک بیٹی اور ماں ہے۔ ان کے علاوہ اور کوئی رشتے دار نہیں ہے۔ ان کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
براہِ کرم مطلع فرمایئے؟

ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس کے رشتے داروں میں صرف اس کی بیوی، باپ اور تین بھائی تھے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پندرہ دن کے بعد اس کے باپ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

میری اہلیہ کا چند دنوں قبل انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ شرعی اعتبار سے اس کی تقسیم ہوجائے۔ ہمارا ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں ۔ لڑکے اور بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ چھوٹی لڑکی ابھی زیر تعلیم ہے۔ اہلیہ کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ بہ راہ کرم مطلع فرمائیں کہ بینک کی رقم کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟

ہمارے ماما جان غلام رسول صوفی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ انھوں نے کئی سال پہلے ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اس کی پرورش کی اور جوان ہونے پر اس کی شادی اپنے بھانجے الطاف احمد سے کی۔ الطاف احمد کی بیوی طاہرہ کے ہاں دو لڑکے اقبال اور عامر پیدا ہوئے۔ طاہرہ شادی کے چند سال بعد فوت ہوگئی۔ چوں کہ غلام رسول اور ان کی بیوی عمر رسیدہ اور بیمار ہونے کی وجہ سے گھریلو کام کاج کرنے سے قاصر تھے، لہٰذا وہ دونوں میاں بیوی الطاف احمد کے یہاں رہنے لگے۔ تقریباً سات سال تک الطاف احمد کے گھر میں رہنے کے بعد غلام رسول کا انتقال ہوگیا۔ پس ماندگان میں ان کی بیوی سندری بیگم، اکلوتی بہن فاطمہ، جو کہ الطاف احمد کی ماں ہے اور ایک بھائی غلام محی الدین صوفی ہے۔ اس کے علاوہ غلام رسول کے دو مرحوم بھائیوں کی بھی اولادیں ہیں ، جو الگ سے اپنا گھر اور کاروبار چلاتے ہیں ۔ مرحوم غلام رسول نے اپنے پیچھے کچھ ملکیت چھوڑی ہے۔ از روئے شریعت یہ ملکیت کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس سلسلے میں آپ کی رہ نمائی درکار ہے۔ امید ہے قرآن و سنت کے مطابق اس بارے میں رہ نمائی فرمائیں گے۔

ہمارے ایک عزیز کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کی جائداد ان کے وارثوں میں کس نسبت سے تقسیم کی جائے گی؟
وہ لا ولد تھے۔ ان کی اہلیہ اور ماں باپ کا انتقال پہلے ہوچکا ہے۔ ایک بھائی اور دو بہنیں اور ایک ماں شریک بہن تھیں ۔ وہ سب بھی فوت ہوگئے ہیں ۔ پس ماندگان میں صرف چار بھتیجے، چھے بھتیجیاں ، نو بھانجے اور دو بھانجیاں زندہ ہیں ۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک لڑکی کو گود لے لیا تھا، جس سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے حق میں ایک تہائی سے کم کی وصیت موجود ہے۔
براہ کرم مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق وراثت کی شرعی تقسیم سے مطلع فرمائیں ۔

میری پھوپھی کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے ذاتی اکاونٹ میں کچھ رقم تھی۔ اس کی تقسیم کیسے عمل میں لائی جائے؟ واضح رہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے شوہر اور دو بہنیں حیات ہیں ۔ بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے، البتہ بھتیجے اور بھانجے ہیں ۔