آیت ’اِنَّ الْأَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ‘ کی تفسیر

( ۲)  اگر مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں یہ وضاحت کردی ہوتی کہ حضرت عبداللہ بن عباس، مجاہد،سعید بن جبیر، عکرمہ، اور ابوالعالیہ جیسے اساطین علم تفسیر بھی یہی کہتے ہیں تو شاید احتراماً اس کی نوبت ہی نہ آتی لیکن اب جب کہ یہ گستاخی ہوچکی ہے تو آپ سے سوال ہے کہ کیا قدیم مفسرین کی تفسیر حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ تمام مفسرین نے سورۂ زمر کے آخرکی آیت میں ارض جنت مرادلی ہے، مگر آپ کہتے ہیں تو ہوگا۔ میرا تو اس پر عمل ہے کہ مسائل قرآنی پرخالی الذہن ہوکر سوچتا اورقرآن کو قرآن سے سمجھنے کی کوشش کرتاہوں۔ جنت کا وارث مومنین کو ضرورکہاگیا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وارث جنت ہونے کی دعا بھی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ ’وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ ‘ میں الارض سے مراد ارض جنت ہے۔ اگر اورثناالجنۃ کہاجاتا تو بے شک آپ کا کہنا ٹھیک تھا۔ جنت کے ساتھ ارض کا مفہوم ہی سمجھ میں نہیں آتا بلکہ ارض جنت کا مفہوم غیرقرآنی نظر آتا ہے۔

جواب

اہل علم کو یہی بات زیب دیتی ہے کہ وہ قرآن کو قرآن ہی سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ پہلے بھی مفسرین ایسا کرتے رہے ہیں۔ القرآن یفسربعضہ بعضاً ایک مشہور مقولہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ ہم قرآن کو سمجھنے کے لیے نہ احادیث سے بے نیاز ہوسکتے ہیں، نہ اقوال صحابہ سے اور نہ مفسرین کی تحقیق سے۔ ان سب سے نہ صرف یہ کہ قرآن فہمی میں سہولت پیدا ہوتی ہے بلکہ انسان تفسیر بالرائے کی غلطی سے بچ جاتاہے۔

اگر قرآن میں ارض الجنۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوا اور صحیح احادیث اورعربی کے زبان داں مفسرین کی تفسیروں میں استعمال ہواہےتوکیاارض جنت کے مفہوم کوغیرقرآنی کہنا صحیح ہوگا؟ قرآن میں جنت کا لفظ اخروی جنت کے لیے بھی استعمال ہواہے اور دنیوی باغ کے لیے بھی۔ لیکن جہاں اس کو دنیوی باغ کے لیے استعمال کیاگیا ہے وہاں بھی ارض الجنۃ موجود نہیں ہے۔اب اگر کوئی دعویٰ کرے کہ دنیوی جنت کے لیے بھی ’ارض ‘ کامفہوم غیرقرآنی ہے تو کیا آپ اس دعوے کو صحیح قراردیں گے؟ ایسا محسوس ہوتاہے کہ آپ کا ذہن لفظ ارض میں الجھ گیا ہے۔آپ سمجھ رہے ہیں کہ ارض تو مٹی کا ایک کرہ ہے جس پر ہم آباد ہیں اور جنت آسمانی مقام ہے، وہاں ’ارض‘ کا وجود کہاں۔ یہ الجھن اس لیے پیش آرہی ہے کہ آپ عالم آخرت کو عالم دنیا پر قیاس کررہے ہیں۔ یہ قیاس صحیح نہیں ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی الجھنیں پیش آتی ہیں۔ دیکھیے یہ زمین بھی جو مٹی کی ہے، قیامت میں یہ زمین باقی نہیں رہے گی بلکہ دوسری زمین سے بدل دی جائے گی۔ اسی طرح یہ آسمان جو ہمارے سروں پرقائم ہیں، یہ آسمان نہیں رہیں گے بلکہ بدل دیے جائیں گے۔ اس حقیقت کی خبر خود قرآن نے دی ہے۔ ذیل کی آیت کامطالعہ فرمائیے

یَوْمَ تَبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ وَالسَّمٰوَاتِ۔   (ابراہیم ۴۸)

’’جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی دوسری زمین میں اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے۔‘‘

جوخدا مٹی کی زمین بنانے پرقادر ہے وہ چاندی، سونے یا مشک کی زمین بنانے پربھی قادر ہے، مٹی کی زمین کانام بھی الارض ہے اورمشک کی زمین کو بھی الارض ہی کہیں گے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عقلاً بھی ’ارض الجنۃ‘ کامفہوم غیرقرآنی کیوں ہوگا؟ صحیح احادیث میں جنت کی جن چیزوں کا ذکر ہے ان میں ’جنت کی مٹی ‘ بھی ہے۔ حضرت انسؓ کی حدیث المعراج میں ایک ٹکڑا یہ ہے

ادخلت الجنۃ فاذا فیھا جنابذاللؤلؤواذا ترابھا المسک          (ابن کثیربحوالہ بخاری)

’’میں جنت میں داخل کیاگیا تو میں نے اس میں موتی کے قبے دیکھے اوراس کی مٹی مشک تھی۔‘‘

وعن ابی سعید قال ان ابن صائد سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن تربۃ الجنۃ فقال درمکۃ بیضاء، مشک خالص            (ابن کثیر بحوالہ مسلم)

’’حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ ابن صائد نے رسول اللہ ﷺ سے جنت کی مٹی کے بارےمیں سوال کیا۔ آپ نے جواب دیا میدے کی طرح سفید اورخالص مشک کی طرح خوشبو۔‘‘

ایک اور روایت حدیث میں ہے

عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقیت ابراھیم لیلۃ اسری بی، فقال یا محمد اقرء امتک منی السلام، واخبرھم ان الجنۃ طیبۃ التربۃ عذبۃ الماء۔                                   (ترمذی ابواب الدعوات ص۱۸۹)

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی تو انھوں نے کہا اے محمد! اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور انھیں خبر دینا کہ جنت کی مٹی پاکیزہ اوراس کا پانی میٹھا ہے۔‘‘

اب رہی آپ کی یہ حجت کہ سورۂ زمر کے اخیر میں وَاَوْرَثَنَا الْجَنَّۃَ کیوں نہیں کہا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آگے کے جملے نَتَبَوَّءُمِنْ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ میں اس کا بیان آرہاتھا اس لیے جملےمیں جنت کالفظ استعمال نہیں کیا ورنہ خواہ مخواہ کی تکرار ہوتی۔ پہلے جملے میں ’الارض ‘ کا لفظ استعمال کیاگیا اور دوسرے جملے میں اس کی وضاحت کردی گئی۔                     (مارچ ۱۹۶۹ء ج ۴۲،ش۳)