اجماع ِ صحابہ

آپ حضرات کے خیال میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع شرعی طور پر حجت ہے یا نہیں ؟({ FR 1930 })
جواب

یاد فرمائی کا شکریہ!میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسروں کے متعلق فتوے دینے کی ذمہ داری آپ حضرات خواہ مخواہ اپنے ذمے لیتے ہی کیوں ہیں ۔اگر کوئی شخص آپ لوگوں کے متعلق مجھ سے دریافت کرے تو میں پہلے ہی معذرت پیش کردوں گا اور کوئی سوال نامہ مرتب کرکے آپ کے پاس نہ بھیجوں گا۔تاہم چوں کہ آپ نے یہ سوالات بھیجنے کی تکلیف اٹھائی ہے اس لیے مختصر جوابات حاضر ہیں ۔
جی ہاں !میرے نزدیک صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے۔ ( ترجمان القرآن ،اگست ۱۹۶۱ء)
اسلام کے ماخذ قانون اور تعبیر واجتہاد
ڈاکٹر مَحمصانی، بیروت کے پروفیسر براے قانون،جو حکومت پاکستان کی دعوت پر اس ملک میں تشریف لائے،انھوں نے اسلامی قانون پر کراچی میں ایک تقریر کی۔عرب ممالک میں قانونی ارتقا کے تین ادوار،خلافت دور عثمانی اور جدید زمانے کا تذکرہ کرکے انھوں نے اس پر بحث کی کہ زمانے کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق اسلامی قانون میں تبدیلی ممکن ہے یا نہیں ۔ان کی بحث کا ماحصل یہ تھا کہ اسلامی قانون کے دو حصے ہیں :ایک خالص مذہبی،دوسرا معاشرتی۔ جہاں تک مذہبی قانون کا تعلق ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، کیوں کہ وہ کبھی نہ بدلنے والے حقائق پر مشتمل ہے،مثلاً توحید،عبادات وغیرہ۔ معاشرتی قانون دو مآخذ پر مبنی ہے:ایک اجتہاد، اور دوسرے قرآن وحدیث۔اجتہاد ہر زمانے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور بدلنا چاہیے۔ احادیث میں سب سے پہلے سوال صحیح وغیر صحیح کا ہے،پھر صحیح احادیث بھی دو قسم کی ہیں :لازمی(obligatory) اور اختیاری یا مشاورتی(permissive) پس آخر کار بحث ان احکام کی رہ جاتی ہے جو یا تو قرآن پر یا صحیح لازمی احادیث پر مبنی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آیا ان دونوں چیزوں کے الفاظ کو— نہیں ( کیوں کہ وہ علیٰ حالہٖ موجود ہیں اور تبدیل نہیں کیے جاسکتے) —سوسائٹی کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق نئی تعبیر(Interpretation) دی جاسکتی ہے؟ڈاکٹر محمصانی نے کہا کہ اس بارے میں فقہا کے دو گروہ ہیں :(۱)اکثریت کی راے یہ ہے کہ آیات قرآنی اور احادیث صحیح کو نئے معنی نہیں پہنائے جاسکتے۔(۲) اقلیت کا استدلال یہ ہے کہ قانون ایک معاشرتی عمرانی سائنس ہے، لہٰذا جیسے جیسے معاشرت وعمران میں تبدیلی ہوتی جائے، قانون کو بھی بدلنا چاہیے،ورنہ وہ زمانے سے اپنا رشتہ توڑ بیٹھے گا۔اسلام ترقی،تہذیب اور بہبود عامہ کا دین ہے اور اس کی یہ خصوصیات باقی نہیں رہتیں اگر ہم اس کے بارے میں قدامت کا رویہ اختیار کریں ۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انھوں نے دو مثالیں بطور نمونہ پیش کیں اور بتایا کہ نہایت کثرت سے انھوں نے ایسی نظیریں اپنی کتابPhilosophy of Islamic Jurisprudence میں دی ہیں ۔
پہلی مثال یہ تھی کہ ایک حدیث صحیح میں گیہوں اور جو کو رقیق اشیا کے پیمانے سے ناپنے کا تذکرہ ہے۔ کیوں کہ اس زمانے میں یہی رواج تھا۔ بعد کو جب وزن کے حساب سے یہ چیزیں فروخت ہونے لگیں تو ایک شخص نے امام ابو یوسفؒ سے استفسار کیا۔انھوں نے کہا کہ وہ معاہدہ جو وزن کے پیمانے سے ہوا ہو،جائز ہے۔ اس سے پتا چلا کہ روا ج کے بدل جانے سے احادیث کی تعبیر یا اطلاق میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔
دوسری مثال جس کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے استدلال کیا کہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کے الفاظ کو سوسائٹی کی ضروریات بد ل جانے پر نئی تعبیر دی جاسکتی ہے،یہ تھی کہ قرآن میں صدقات کے مصارف میں مؤلفۃ القلوب کا بھی ایک حصہ رکھا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب نو مسلموں کو صدقات میں سے کچھ دینے سے انکار کیا تو انھوں نے قرآن کی آیت سندمیں پیش کی کہ یہ تو ہمارا حق ہے جو قرآن نے مقرر کیا ہے،آپ اسے کیسے ختم کرسکتے ہیں ؟حضرت عمرؓ نے جواباًکہا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی،اس وقت اسلام کمزور تھا،اس لیے اس کی ضرورت تھی،اب اسلام خدا کے فضل سے قوی ہے،لہٰذااب ضرورت باقی نہیں رہی،پس میں تم کو یہ حصہ نہیں دوں گا۔
اس قسم کی مثالوں میں ایک معاملہ قطع ید کا بھی ہے۔حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو جس نے بیت المال میں چوری کی تھی، اور دوسرے کو جس نے اپنے آقا کا مال چرایا تھا،قطع ید کی سزا نہیں دی، اس دلیل سے کہ ان کا اس مال میں حصہ تھا۔اسی طرح قحط کے زمانے میں آپ نے اس سزا کو موقوف کردیا۔