اختلاط مرد و زن

آج کل مرد و زن کا اختلاط مختلف شکلوں میں ہوتا ہے۔ کیا سب ہی شکلیں یکساں ممنوع ہیں ؟ ایک مجلس میں مرد اور خواتین کی الگ الگ نشستیں ہوں ، جیسا کہ آج کی نشست ہے، اسے بھی بعض حلقے ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کی وضاحت فرمائیں ۔
جواب

یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اسلام مرد و زن کے اختلاط کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ یہ اختلاط جتنا زیادہ ہوگا ممانعت بھی اتنی ہی شدید ہوگی۔ اختلاط کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک صورت یہ کہ کسی مجلس میں مرد و خواتین کی ملی جلی نشستیں ہیں ، آپس میں ہنسی مذاق ہو رہا ہے، انھیں ایک دوسرے سے قریب اور بے تکلف ہونے کے مواقع حاصل ہیں اور وہ ان مواقع کو کام میں لا رہے ہیں تو یہ اختلاط ناجائز اور حرام ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں آدمی کے غلط رخ پر جانے کے کافی امکانات ہیں ۔ دوسری صورت کلاس روم کی ہے۔ فرض کیجیے کلاس میں طلبا کی تعداد پچاس (۵۰) ہے۔ اس میں پچیس (۲۵) لڑکے اور پچیس (۲۵) لڑکیاں ہیں ۔ دونوں کے لیے علیٰحدہ نشستوں کا انتظام ہے تو اس میں گوکہ دونوں ایک ہی مجلس میں ہیں ، لیکن اختلاط نہیں ہے۔ اس میں بہ ظاہر کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا۔ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں خواتین مسجد اور عید گاہ میں آتی تھیں لیکن ان کی صفیں الگ ہوتیں ۔ وہ مردوں کے ساتھ نماز ادا کرتیں اور آپؐ کے مواعظ سے فائدہ اٹھاتیں ۔ بازار میں مرد اور عورت ساتھ چلتے ہیں ، لیکن اس میں بے تکلفی کے مواقع نہیں ہوتے۔ اس لیے اسے ضرورتاً گوارا کیا جاتا ہے۔
اس مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ عمر کے فرق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ سورۂ نور میں لباس کے معاملہ میں بڑی عمر کی خواتین کے ساتھ رعایت کی گئی ہے (النور:۶۰)۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اختلاط کے معاملہ میں اسلام ایک جوان عورت سے جس احتیاط کا مطالبہ کرتا ہے، سن رسیدہ خاتون سے اس کا یہ مطالبہ نہیں ہے۔