ایک صاحب علم لکھنؤ سے لکھتے ہیں
آپ جانتے ہوں گے کہ ۱۹۵۲ء میں ایک مرزائی کو جب کابل میں قتل کیاگیا تھا تو ہندوستان کے تمام علماء نے حکومت افغانستان کے اس فعل کو سراہا تھا اور مبارک باد کے تار بھیجے تھے اور قتل مرتد کا جواز بلکہ وجوب ثابت کرنے کے لیے متعدد رسالوں اوراخباروں مثلاً ’زمیندار‘ لاہور،’صوفی‘ پنڈی بہاء الدین وغیرہ میں مضامین شائع کیے تھے۔ مولانا مودودی نے قتل مرتد کے اثبات پرایک مستقل رسالہ لکھا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ غالباً ۱۹۶۸ء میں ’برہان‘ دہلی کی کسی اشاعت میں مولانا محمد تقی امینی ناظم شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک مضمون شائع ہواتھا جس میں انھوں نے ثابت کیاتھا کہ فقہا کے نزدیک قتل مرتد ہرگز جائز نہیں، اس بارے میں عام عقیدہ بے اصل ہے۔ حال میں سہ ماہی رسالہ ’اسلام اور عصر جدید‘ دہلی میں انھوں نے پھر اس کی صراحت کی ہے اور’صدق جدید‘ دریا باد میں بھی اسے نقل کیاگیاہے۔ امید ہے کہ آپ زندگی میں اس کامفصل جواب دیں گے۔
جواب
کابل میں کسی مرزائی کے قتل کے جس واقعہ کا آپ نے حوالہ دیاہے، وہ مجھے یاد نہیں ہے۔ برہان میں مولانا تقی امینی صاحب کا مضمون بھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ میں نے مولانا مودودی کی کتاب بہت عرصہ ہوا پڑھی تھی لیکن اس وقت وہ میرے سامنے نہیں ہے اور یہ بھی یاد نہیں کہ کن دلائل سے انھوں نے قتل مرتد کااثبات کیاہے۔ مولانا تقی امینی کا جومقالہ ابھی حال میں شائع ہوا ہے، پہلے ’صدق جدید‘ میں اس کا حوالہ میری نظر سے گزرا تھا۔ اس کے بعد’اسلام اور عصرجدید‘ میں بھی میں نے اس کا مطالعہ کیا۔ صدق جدید میں ان کے مضمون کا حوالہ دیکھ کر میں نے جناب مولانا عبدالماجد دریابادی مدمجدہ کو ایک مختصر خط لکھا تھا جو مراسلہ کے کالم میں ’’قتل مرتد‘‘ کے عنوان سے ۱۶؍جون ۱۹۷۲ء کے صدق جدید میں شائع ہواہے۔ مولانا دریابادی نے اس کے نیچے یہ نوٹ دیاتھا’’ اگر مولاناتقی امینی صاحب کچھ فرمانا چاہیں تو ان کے لیے گنجائش باقی ہے۔‘‘ لیکن اب تک ان کا کوئی جواب میری نظر سے نہیں گزرا۔ میں نے مولانا دریابادی کو جو خط لکھا تھا وہ یہ ہے
۲۶؍مئی ۱۹۷۲ء کا ’صدق جدید‘ پیش نظر ہے۔ عرض یہ ہےکہ مولانا تقی امینی ناظم دینیات علی گڑھ نے نہ فقہائے احناف کی صحیح ترجمانی کی ہے اور نہ پوری عبارتیں نقل کی ہیں۔ انھوں نے مرتد عورت کے قتل یا عدم قتل کی ضمنی بحث سے ناقص عبارتیں نقل فرمائی ہیں، اصل بحث کی عبارتوں کو بالکل نظرانداز کردیاہے۔
فقہ حنفی کی کتابوں کاموقف یہ نہیں ہے کہ مرتد جب تک علم بغاوت بلند نہ کرے اورجب تک بالفعل جنگ جوئی کا مرتکب نہ ہواسے قتل نہ کیاجائے، بلکہ موقف یہ ہے کہ مسلمان اتداد اختیار کرتے ہی محارب اورحربی ہوجاتا ہے۔ خواہ وہ بغاوت اورجنگ کرے یا نہ کرے۔ اگر مرتد دوبارہ اسلام قبول نہ کرے تو وہ اپنے اصرار علی الکفر کی بناپر اوراس بناپر کہ مرتد ہوتے ہی حربی ہوچکا، قتل کردیاجائے گا۔ مولانا نے فیقتل لدفع المحاربۃ کا ٹکڑا ناقص نقل کیا ہے۔ پورا جملہ یہ ہےوبالاصرار علی الکفر یکون محارباً للمسلمین فیقتل لدفع المحاربۃ۔ اسی طرح انھوں نے لان القتل لیس بجزاء علی الردۃ کی عبارت بھی کاٹ کر نقل کی ہے۔ پوری عبارت یہ ہے لان القتل لیس بجزاء علی الردۃ بل ھو مستحق باعتبارالاصرار علی الکفر الا تری انہ لواسلم یسقط لا نعدام الاصرار۔ (صدق جدید۱۶؍جون ص۶)
ملاحظہ کیجیے کہ انھوں نے پہلی عبارت کے اول حصہ کو حذف کردیااور دوسری عبارت کے آخری حصہ کو کاٹ لیا کیوں کہ اس کے بغیر مولانا اپنی بات کو فقہا کےمنہ میں نہیں ڈال سکتے تھے۔
’اسلام اور عصر جدید‘ اپریل ۱۹۷۲ء میں ان کا مقالہ ’مفاہمت بین المذاہب‘ شائع ہواہے۔ اس میں قتل مرتد کے ذیل میں انھوں نے لکھاہے
’’مرتد کی سزا کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ کفر وشرک اوراختلاف مذہب کی بناپر تھی حالاں کہ درج ذیل عبارتوں سے ظاہرہے کہ یہ ظلم وزیادتی اور بغاوت کی بناپرہے۔ فقہ کی مستند کتابوں میں ... (ص۴۱)
اس کے بعد انھوں نے فقہ کی مستند کتابوں سے نہیں بلکہ صرف ایک کتاب ’المبسوط‘ کی ضمنی بحث سے اس کی عبارتوں کے تین ناقص ٹکڑے نقل کیے ہیں۔
اس وقت میرا مقصد قتل مرتد پرکوئی مقالہ لکھنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ تمام ائمہ دین اور فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ ارتداد کی سزا قتل ہے او ر یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حدیث صحیح کی نص صریح سے ثابت ہے اور اسی حدیث کو تمام فقہا نے استدلال میں پیش کیا ہے۔ یہ حدیث آگے آرہی ہے۔ میں سب سے پہلے المبسوط ہی سے قتل مرتد کی اصل بحث کی مفصل عبارت نقل کرتاہوں
واذا ارتد المسلم عرض علیہ الاسلام، فان اسلم والاقتل مکانہ، الاان یطلب ان یؤجل، فاذا طلب ذلک اجل ثلثۃ ایام- والاصل فی وجوب قتل المرتدین قولہ تعالی ’’اویسلمون‘‘ قیل الاٰیۃ فی المرتدین، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ وقتل المرتد علی ردتہ مروی عن علی وابن مسعود ومعاذ وغیرھم من الصحابۃ رضی اللہ عنھم، و ھذا لان المرتد بمنزلۃ مشر کی العرب او اغلظ منھم جنایۃ، فانھم قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والقرآن نزل بلغتھم فلم یرا عواحق ذلک حین اشرکوا، وھذا المرتد کان من اھل دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد عرف محاسن شریعتہ ثم لم یراع ذلک حین ارتد، فکما لایقبل من مشرکی العرب الاالسیف او الاسلام فکذلک من المرتدین، الا انہ اذا طلب التاجیل اجل ثلثۃ ایام۔ (المبسوط ج۱۰ ص۹۸)
’’اورجب مسلمان مرتد ہوجائے تو اس کے سامنے اسلام پیش کیاجائے۔ پس اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کرلے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو اسی جگہ قتل کردیا جائے گا، الا یہ کہ وہ غور کرنے کے لیے کچھ مہلت چاہے۔ اگر وہ مہلت طلب کرے تو اس کو تین دن کی مہلت دی جائے گی۔ مرتدوں کے قتل کے واجب ہونے کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے’ اویسلمون‘ ( یا وہ اسلام قبول کرلیں )۔ کہاگیا ہے کہ یہ آیت مرتدین ہی کے بارے میں ہے اور یہ کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو (مسلمان) اپنا دین تبدیل کردے اس کو قتل کردو۔ اورمرتد کا قتل اس کی ارتداد کی بناپر حضرت علی وابن مسعودومعاذ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ اور یہ سزا اس لیے دی جائے گی کہ مرتد بمنزلہ مشرکین عرب ہے بلکہ اس کا جرم ان سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کیوں کہ مشرکین عرب رسول اللہﷺ کے قرابت دار تھے اورقرآن انھی کی زبان میں نازل ہوا، مگر انھوں نے شرک اختیار کرکے اس کےحق کی رعایت نہیں کی۔ اور یہ مرتد رسول اللہﷺ کے اہل دین میں تھا اور اس نے آپ کی شریعت کے محاسن کی معرفت حاصل کی تھی۔ پھر جب وہ مرتد ہوگیا تواس نے اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا۔ پس جس طرح مشرکین عرب سے تلواریا اسلام کے سواکوئی چیز قبول نہیں کی جاتی اسی طرح مرتدین سے بھی معاملہ کیاجائے گا کہ یاتو وہ پھر اسلام قبول کریں ورنہ قتل کردیے جائیں۔ الا یہ کہ مرتد جب مہلت طلب کرے گا تو اس کو تین دن کی مہلت دی جائےگی۔‘‘
اس عبارت میں امام سرخسی نےدو دلیلیں قرآن وحدیث سے دی ہیں اور تیسری عقلی وقیاسی دلیل پیش کی ہے۔ قرآن کی جس آیت کا انھوں نے حوالہ دیا ہے وہ سورۃ الفتح کی سولہویں آیت ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے
’’جو دیہاتی پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم جلد ایک سخت جنگ جو قوم کے ساتھ لڑائی کے لیے بلائے جائو گے، ان سے یاتو تم جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں ایک مضبوط قول یہ ہے کہ اس کے مصداق وہ مرتد قبیلے تھے جن سے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی۔اس سے معلوم ہواکہ یہ آیت مرتدین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ دوسری دلیل انھوں نے اس صحیح حدیث کی پیش کی ہے جس سے تمام ائمہ دین اور فقہاء امت نے استدلال کیاہے۔ امام سرخسیؒ نے جو الفاظ من بدل دینہ فاقتلوہ (جو مسلمان اپنا دین بدل دے اس کو قتل کردو) نقل کیے ہیں وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری ج۲ باب حکم المرتدوالمرتدہ میں موجود ہے۔امام ترمذی اور دوسرے محدثین نے بھی اپنی کتابوں میں یہ حدیث درج کی ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں حضرت زید بن اسلم سے روایت کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں
مالک عن زید بن اسلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من غیر دینہ فاضربوا عنقہ۔ (مؤطا ج۲ مع مصفی ومسوی ص۱۰۸)
’’امام مالک نے حضرت زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان اپنا دین بدل ڈالے اس کی گردن ماردو۔‘‘
ان صحیح حدیثوں میں ملاحظہ کیجیے کہ مرتد کی سزا قتل کی بناارتداد کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جو مسلمان دین اسلام کو چھوڑ کرد وسرا دین اختیار کرے گا اسلامی حکومت اسے قتل کی سزا دے گی۔ الا یہ کہ وہ پھر اسلام لے آئے۔ اسی پرعہد رسالت میں بھی عمل ہواہے اور عہد خلفائے راشدین میں بھی۔ عہد رسالت کا ایک واقعہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔
حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو حضورؐ نے صوبہ یمن کے انتظام کے لیےبھیجا تھا۔ اس صوبے کے دوحصے تھے۔ایک بار حضرت معاذؓ،حضرت ابوموسیٰؓ سے ملاقات کے لیے آئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں بندھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسلمان ہوگیاتھا لیکن اس نے پھر کفر اختیار کرلیا۔ حضرت ابوموسیٰؓ نے کہا کہ آپ سواری سے اتریے اورتشریف رکھیے۔ اس شخص کو قتل کرنے ہی کےلیے گرفتارکیاگیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ جب تک یہ شخص قتل نہ کردیا جائے میں اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ یہی اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے(قضاء اللہ ورسولہ)۔ یہ بات انھوں نے تین بار کہی۔ جب وہ اپنی سواری سے نہ اترے تو حضرت ابوموسیٰؓ نے حکم دیااور وہ شخص قتل کردیاگیا۔
یہ واقعہ امام بخاری نے کتاب المغازی میں بھی روایت کیا ہے اور ’باب حکم المرتد والمرتدۃ‘ میں بھی۔ میں نے دونوں کو سامنے رکھ کر زیر بحث مسئلہ سے متعلق حصے کی تلخیص پیش کی ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ قتل مرتد کے حکم سے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی واقف تھےاور حضرت معاذؓ نے تواس کو اللہ اوراس کے رسول کا فیصلہ کہاہے۔ اور یہ حکم ان کے نزدیک اتنا مؤکد تھا کہ وہ اپنی سواری سے اس وقت تک نہ اترے جب تک کہ وہ مرتد قتل نہ کردیاگیا۔ امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’ اس سے قتل مرتد کا وجوب ثابت ہوتاہے۔ اور اس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔ عہد خلافت راشدہ میں قتل مرتد کے واقعات کا ذکر بخاری اورمؤطا امام مالک میں بھی ہے۔‘‘
امام سرخسی کی تیسری دلیل کاحاصل یہ ہے کہ جب مشرکین عرب کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ان سے تلوار یعنی قتل یا اسلام کے سواکوئی چیز قبول نہ کی جائے تو پھر مرتدین کا حکم بھی یہی ہوگا کہ یا تو وہ اسلام قبول کریں ورنہ انھیں قتل کردیاجائے، کیوں کہ ان کا جرم مشرکین عرب کے جرم سے زیادہ سخت ہے۔ یہ گویا قتل مرتد کی عقلی وقیاسی دلیل ہوئی۔
آپ نے دیکھا کہ امام سرخسی نے قتل مرتد کی اصل بحث میں جو دلائل دیے ہیں اور جو مفصل گفتگو کی ہے اس میں اس کا شائبہ تک نہیں ہے کہ مرتد کو قتل کی سزا دینے کی بنابغاوت یااس کی محاربت ہے بلکہ اس کے برعکس انھوں نے یہ کہا ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر کفر اختیارکرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر مرتد دوبارہ اسلام نہ لائے تو اس کی سزا قتل ہی ہوسکتی ہے۔
اب تک جو کچھ لکھا گیا وہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ احادیث نبوی، عمل صحابہ اور کتب فقہ میں مرتد کی سزا بغاوت اورمحاربت کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ فقہ کی کتابوں میں ارتداد، بغاوت اور محاربت کے لیے الگ الگ مستقل ابواب لکھے گئے ہیں کیوں کہ ان تینوں کی سزائیں اور ان کی تفصیلات یکساں نہیں ہیں۔ بلکہ ان جرائم میں سے ہر ایک اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے۔
میں مزید وضاحت کے لیےیہاں فقہ کی چند اور تصریحات پیش کرتاہوں۔ امام محمد اپنی کتاب جامع صغیر میں لکھتے ہیں
ویعرج علی المرتد حراکان او عبداالاسلام فان ابی قتل۔ (الجامع الصغیر، ص۸۶)
’’مرتد پرخواہ وہ آزاد ہویا غلام، اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ قبول کرنے سے انکار کرے تو قتل کردیا جائے گا۔‘‘
علامہ کاسانی لکھتے ہیں
’’اگر مرتد مرد ہو خواہ وہ آزاد ہویا غلام تو اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔ اس لیے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کی جان کی عصمت وحفاظت ساقط ہوگئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان اپنا دین بدل دے اس کو قتل کردو۔ اسی طرح عرب کے قبیلے جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے قتل پر اجماع کیا۔‘‘ (بدائع الصنائع ج۷ ص۱۳۵)
ملاحظہ کیجیے علامہ کاسانی نے بھی مرتد کے مباح الدم ہونے کی بنااس کے ارتداد ہی کو قراردیا ہے۔ قاضی ابن رشد مزید وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں
والمرتد اذا ظفربہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی أنہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من بدل دینہ فاقتلوہ۔ (بدایۃ المجتہد ج۲باب فی حکم المرتد)
’’اور مرتد پرجب غلبہ پالیا جائے اس سے پہلے کہ وہ محاربہ کرے تو فقہا اس پر متفق ہیں کہ مرد مرتد کو قتل کیاجائے گا۔ نبی ﷺ کے اس قول کی دلیل سے کہ جو مسلمان اپنا دین بدل دے اس کو قتل کردو۔‘‘
اس عبارت نے پوری طرح واضح کردیا کہ مرتد کی سزا اس کی محاربت (جنگ اور قتل وغارت) پرمبنی نہیں ہے بلکہ اس کی بناصرف اس کے ارتداد پرہے۔ فقہ سے واقف ہرشخص جانتا ہے کہ ارتداد اور محاربت دو الگ الگ جرم ہیں اور ان دونوں کے احکام ومسائل بھی الگ الگ ہیں۔
فقہا کے درمیان مرتدہ یعنی مرتد عورت کی سزا میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ مالک، شافعی، احمد رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرتد عورت کی سزا بھی قتل ہے اور امام ابوحنیفہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ قید کردیاجائے گا۔یہاں تک کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کرے یا قیدہی میں مرجائے۔ گویا اس جرم میں حبس دوام کی سزا دی جائے گی۔اسی مسئلے کے ذیل میں مبسوط کی بحث سے مولانا تقی امینی صاحب نے چند جملے کتر بیونت کرکے اپنے خیال کے مطابق بنالیے ہیں۔ میں اپنے اس خط میں اس کی توضیح کرچکا ہوں جو’صدق جدید‘ لکھنؤ میں شائع ہواہے اورجسے اس تحریر میں بھی پہلے نقل کیاگیا ہے۔
مولانا تقی صاحب نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا ہے
’’حکومت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت صرف بغاوت کی بناپرسزادے سکتی ہے جس میں مسلم وغیرمسلم کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ جس کی طرف سے بغاوت پائی جائے گی اس کے خلاف کارروائی ضروری ہوگی۔ جیسا کہ تاتاری اور مانعین زکوٰۃ اگرچہ مسلمان تھے لیکن ان کے خلاف جنگ کی گئی۔‘‘
(’’اسلام اور عصرجدید ‘‘ اپریل ۱۹۷۲ء ص۷۲)
فقہ میں ’باغی‘ اوراس کی جمع ’بغاۃ‘ کی اصطلاح صرف مسلمان کے لیےہے۔ کوئی غیرمسلم فقہی اصطلاح میں باغی نہیں کہاجاتا۔ جس کتاب مبسوط سے انھوں نے کاٹ چھانٹ کر چند جملے نقل کیے ہیں، اس میں بھی مرتد کے لیے بغاوت اور باغی کے الفاظ نہیں استعمال کیے گئے ہیں۔ اوریہ بات غیرمتوقع ہے کہ مولانا فقہ کی اس اصطلاح سے ناواقف ہوں گے، لیکن چوں کہ انھیں ارتداد کی بناپر قتل مرتد کی نفی کرنی تھی اس لیے انھوں نے یہ اصطلاح بھی نظر انداز کردی۔
کوئی شخص اگر یہ رائے رکھتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہ ہونی چاہیے تو اس کو یہ رائے رکھنے کا اختیارہے لیکن اپنی رائے فقہا کی طرف منسوب کردینے کو علمی بددیانتی اور بہتان ہی کہاجائے گا۔
(ستمبر۱۹۷۲ء ج۵۰ ش۳)