اسلامی حکومت اور فرض ناشناس ملازمین

موجودہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد میں بلندی سیرت اور فرض شناسی کا جذبہ ہی کم ہے، ایک اسلامی حکومت ان سے کیوں کر کام لے گی؟
جواب

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کے ملازمین اور قوم کے بعض دوسرے افراد کی اخلاقی حالت نے پوری قومی زندگی کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ یہ ایک بڑا نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اخلاقی جرائم لازمی طور پر خدا سے بے خوفی اور آخرت سے بے فکری کانتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہ تو خرابی کا بنیادی سبب ہے لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں پائے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے یہ خرابیاں چاروں طرف پھیل رہی ہیں ۔ مثلاًہمارے معاشرے کے اوپر کے طبقے نے نہایت ہی عیاشانہ اور مسرفانہ زندگی اختیار کر رکھی ہے۔ اس طبقے کی ضروریات صرف کھانے پینے،رہنے سہنے اور بچوں کی تعلیم کی حد تک محدود نہیں ہیں بلکہ انھیں ہزاروں روپے بعض دیگر مشاغل کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ملک کا نظام چلا رہے ہیں ، ان کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ اوپر والوں کے عملی نمونے نیچے والوں کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔ متوسط طبقہ اوپر والے طبقے کا اثر قبول کرتا ہے اور متوسط طبقے سے پھر ادنیٰ اور فرو تر درجے کے لوگ اثر پذیر ہوتے ہیں ۔ یہ متوسط اور بالکل نچلے طبقے کے لوگ تو ایک طرح سے اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا معیار زندگی قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے جائز وناجائز ذرائع استعمال کریں ۔
اب اگر آپ اس سارے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہرگز یہ توقع نہ رکھیں کہ صرف ایک طبقے کی اصلاح سے اور وہ بھی قانون کے بل پر یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس بیماری کی جڑیں معاشرے کی رگ رگ میں پھیل چکی ہیں ۔اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ معاشرتی خرابیوں کو رفع کرنے کے لیے صرف قوانین پر انحصار نہیں کرتا۔ بلکہ وہ خرابی پر ہر پہلو سے اور زندگی کے ہرشعبے سے حملہ آور ہوتا ہے۔وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے سے، تبلیغ وتلقین کے ذریعے سے، اصلاح اور انسدادی تدابیر کے ذریعے سے، اور ساتھ ہی قانون کے زور واثر سے برائی کو مٹاتا ہے۔ایک اسلامی حکومت کو معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ سارے کام کرنے ہوں گے۔ تعلیم گاہوں ، نشر گاہوں ،اخبارات اور پروپیگنڈے کی ساری طاقتوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ پھر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ عملاً ان اسباب کو رفع کیا جائے جو اوپر والے طبقے کو اسراف پر آمادہ کرتے ہیں ۔ اس طبقے کے جو لوگ اونچی ملازمتوں میں ہیں ،ان کی تنخواہیں بڑھانے کے بجاے گھٹانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ بیش قرار تنخواہیں ہی ان کی فضول خرچیوں کا اصل باعث ہیں ۔ نچلے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ بسا اوقات حقیقی ضروریات کی فراہمی ہی انھیں بدعنوانیوں پر مجبور کرتی ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ادنیٰ اور اوسط درجے کے ملازمین کی کثیر تعداد یہ چاہتی ہے کہ و ہ رشوت خوری اور دوسری ناجائز کارروائیاں نہ کرے لیکن بعض حالات میں وہ مجبور ہوجاتے ہیں ۔ بہرحال اصلاح حال کے لیے یہ سارے اقدامات ناگزیر ہیں ۔ ان سارے انتظامات کے باوجود جو لوگ رشوت اور خیانت سے باز نہ آئیں ،ایسے مجرمین کے لیے اس قسم کے قوانین ہونے چاہییں جن کی رُو سے انھیں چوراہوں پر عبرت ناک سزائیں دی جائیں ۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اس طرح بجٹ میں دفعتاً اضافہ ہوجائے گا۔میں اس کا جواب یہ دیتا ہوں کہ اگر ہمارے سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین سارے کے سارے ایمان دار بن جائیں اور ان کا ا فلاس بھی باقی نہ رہے تو حکومت کی آمدنی بہت آسانی سے کم ازکم دوگنی ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ رشوت، غبن اور خیانت کی وجہ سے حکومت کی بہت سی آمدنی خزانے تک پہنچنے ہی نہیں پاتی۔ اگر حکومت اس سے محروم نہ رہے تو وہ بسہولت تنخواہوں کے اضافے کو برداشت کر سکتی ہے۔ البتہ آغاز کار کے لیے حکومت کو شاید اس کی ضرورت پیش آئے گی کہ وہ پبلک سے بلا سودی قرضے طلب کرے۔ لیکن حکومت کی ساکھ اور اس کا اعتماد اگر قوم میں موجود ہو تو ایک اصلاحی اسکیم کے لیے سود کے بغیر قرض حاصل کرلینا کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔ اگر حکومت، ملازمین اور عوام دیانت داری کے ساتھ اس مہم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو شاید چند سالوں کے اندر رشوت وخیانت کا نام ونشان بھی مٹ جائے اور جائز ذرائع کے ساتھ ہر شخص اپنی ضروریات مہیا کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۴ء)