اسلامی دستور کے نفاذ کے لیے اقتدار کا حصول

’’ترجمان القرآن‘‘ کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبی ﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،مگر حضرت یوسف ؈ کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انھوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کرلیا اور یہ طریقِ کار اختیار نہیں کیاکہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں ۔کیا آج بھی جب کہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنازیادہ ہمہ گیر ہوچکا ہے،اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے،اس سے مجھے پور اپورا اطمینان نہیں ہوا۔({ FR 2246 }) مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف ؈ کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو صرف نبی ﷺ کا اُسوہ واجب الاتباع ہے۔آپؐ نے اہلِ مکہ کی بادشاہت کی پیش کش کو رَدّ کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر وتشکیل کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریقِ کار اَب یہی ہے۔واضح فرمایئے کہ میری یہ راے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔
جواب

ہمارے لیے سارے انبیا ؊ واجب الاتباع ہیں ۔خود نبی ﷺ کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اسی طریق پر چلیں جو تمام انبیا کا طریق تھا۔ جب قرآن کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہوجائے کہ کسی معاملے میں کسی نبی نے کوئی خاص طرزِعمل اختیار کیا تھا اور قرآن نے اس طریق کار کو منسوخ بھی نہ قرار دیا ہو تو وہ ویسا ہی دینی طریقِ کار ہے جیسے کہ وہ جو نبی کریم ﷺ سے مسنون ہو۔
نبی کریم ﷺ کو جو بادشاہی پیش کی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ آپؐ اس دین کو اور اس کی تبلیغ کو چھوڑ دیں تو ہم سب مل کر آپﷺ کو اپنابادشاہ بنالیں گے۔ یہ بات اگر یوسف ؈ کے سامنے بھی پیش کی جاتی تو وہ بھی اسی طرح اس پر لعنت بھیجتے جس طرح نبی کریمؐ نے اس پر لعنت بھیجی اور ہم بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔لیکن حضرت یوسف ؈ کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے، وہ غیر مشروط اور غیر محدود تھے اور ان کے قبول کرلینے سے حضر ت یوسف ؈ کو یہ اقتدارحاصل ہورہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دین ِ حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبی کریمﷺ کے سامنے پیش کی جاتی تو آپؐ بھی اسے قبول کرلیتے اور خواہ مخواہ لڑ کر ہی وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔اسی طرح کبھی ہم کو اگر یہ توقع ہو کہ ہم راے عام کی تائید سے نظامِ حکومت پر اس طرح قابض ہوسکیں گے کہ اس کو خالص اسلامی دستور پر چلا سکیں تو ہمیں بھی اس کے قبول کرلینے میں کوئی تأمل نہ ہوگا۔ (ترجمان القرآن ،جنوری،فروری ۱۹۴۵ء)