اسلامی ریاست میں عورت کی قیادت

ایک محترمہ اپنے مکتوب میں لکھتی ہیں : میں عورت کی سربراہی کی حمایت (Favour) نہیں کرتی، اس لیے کہ شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ امامت و قیادت کے فرائض ادا نہیں کرسکتی۔ جسمانی طور پر (Physically) بھی یہ اس کے لیے نہیں ہے۔ حدیث اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ عورت کی سربراہی ناپسندیدہ ہے، مگر کیا اسے ہر حالت میں حرام یا ناجائز کے دائرہ(Category) میں رکھنا درست ہوگا؟ بعض علماء کا خیال ہے کہ ناگزیر حالات (Emergency condition) میں عورت کی سربراہی گوارا کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے حالات میں عورت کو سربراہ بنانا جائز ہے یا حرام اور ناجائز؟ اگر جائز ہے تو Emergencyحالات کون سے ہوں گے اور کون ان کا تعین کرے گا؟ آپ نے اپنی کتاب ’عورت اسلامی معاشرہ میں ‘ لکھا ہے کہ اس معاملہ میں اجماع ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اس اجماع کی تفصیلات (Details) بتائیں تاکہ امت کے سامنے صحیح پوزیشن آسکے۔
جواب

عورت ریاست کی سربراہ ہوسکتی ہے یا نہیں اس پر ادھر جو بحثیں ہوئی ہیں ان میں سے بعض میری نظر سے بھی گزری ہیں ، لیکن میری رائے یہی ہے کہ اسلام نے اس منصب کے لیے جو شرائط رکھی ہیں ، وہ اس میں نہیں پائی جاتیں اور جن حدود کا اسے پابند بنایا ہے ان کی پابند رہ کر اس کا حق ادا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ حدیث اور قرآن کی رو سے عورت کی سربراہی ’’ناپسندیدہ‘‘ ہے۔ میرے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ، ناجائز ہے۔ آپ کے خط کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ اس سے آپ کو بھی اتفاق ہے۔
رسول خدا ﷺکے علم میں جب یہ بات آئی کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو تختِ سلطنت پر بٹھایا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’لن یفلح قوم ولّوا امرھم امرأۃ‘‘۱؎ (وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا سربراہ بنایا) اس تنبیہ سے امت کے علماء و فقہاء نے یہی سمجھا ہے کہ عورت کو اس منصب پر فائز کرنا ناجائز اور تباہی کو دعوت دینے کے ہم معنی ہے۔
بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ اس ارشاد کا تعلق خاص اہل فارس سے اور اسی دور سے ہے۔ یہ کوئی ابدی حکم نہیں ہے۔ حالاں کہ آپ نے ایک عام قانون بیان فرمایا ہے۔ اس میں اس بات کا نہ تو کوئی اشارہ پایا جاتا ہے اور نہ کسی نے آج تک یہ سمجھا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی بات ہے، بلکہ اسے ایک ابدی حکم ہی کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی لیے کسی بھی دور میں عورت کا کسی اسلامی ریاست کا سربراہ ہونا جائز نہیں ہے۔
اضطراری حالات فرد کو بھی لاحق ہوسکتے ہیں اور کسی گروہ کو بھی ان سے سابقہ پیش آسکتا ہے۔ جہاں تک فرد کے اضطرار کا تعلق ہے، قرآن مجید نے اس صورت میں بعض احکام میں رخصت عطا کی ہے۔ مثال کے طور پر آدمی کو حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم ہے، لیکن اس کی جان پر بن آئے اور کوئی حلال چیز دست یاب نہ ہو تو حرام اور ناجائز چیز استعمال کرکے بھی وہ اپنی جان بچا سکتا ہے، بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اس صورت میں اس کا جان بچانا ضروری ہے ورنہ وہ گنہ گار ہوگا۔ انھوں نے فرد کے اضطراری حالات اور ان کے احکام پر تو تفصیل سے بحث کی ہے، البتہ اس طرح کی تفصیلات ہمیں جماعت کے اضطرار کے مسئلہ میں نہیں ملتیں ۔ لیکن بعض اشارات سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر شریعت کا حکم ہے کہ مسلمانوں کا امام متقی اور خدا ترس ہو، لیکن مجبوری میں اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے فاسق و فاجر کی قیادت بھی برداشت کی جاتی ہے۔ یہ ایک مجبوری ہے اس سے عام قانون بدل نہیں سکتا۔
ٹھیک اسی طرح عورت کی سربراہی کو اسی وقت گوارا کیا جاسکتا ہے جب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو اور ملک و ملت کو اس کی مخالفت سے کسی سنگین خطرہ کا اندیشہ ہو۔ اس کا فیصلہ کرنا ہر ملک کا اپنا کام ہے۔
اگر کسی اسلامی ملک میں عورت اقتدار میں آجائے تو پرامن طریقے سے اسے بدلنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ البتہ اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہ ہوگا، جس سے فتنہ و فساد پھوٹ پڑے اور ریاست کو نقصان پہنچے۔
اب رہا یہ سوال کہ اس مسئلہ میں اجماع کی تفصیلات بتائی جائیں ، تو عرض ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں علامہ سعد الدین تفتازانی، علامہ ابن عابدین اور قاضی شوکانی وغیرہ کے حوالوں سے لکھا ہے کہ عورت کی امارت جائز نہیں ہے۔ یہ بھی صراحت کی ہے کہ بقول امام ابن حزم اس پر اجماع ہے۔ ایک اور مضمون میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی، حضرت شاہ ولی اللہ، ابن عربی مالکی اور ابن قدامہ حنبلی کے حوالے فراہم کیے ہیں ۔۱؎ ان علماء کا مختلف مکاتبِ فقہ سے تعلق ہے۔ اس کے بعد مزید تصریحات کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی معتبر رائے موجود نہیں ہے۔