اسلام کو جماعت اسلامی میں منحصر کرنا

جماعتِ اسلامی میں جو مسلما ن داخل نہیں ،ان کے اسلام و ایمان کے متعلق کیا راے ہے؟اسلام میں داخل اور مسلمان ہیں یا نہیں ؟
جواب

سوال کے متعلق اوّلین بات جو دریافت طلب ہے،وہ یہ ہے کہ آخر یہ سوال پیدا کیسے ہوا؟کیا ہم نے کبھی یہ کہا تھا یا لکھا تھا کہ جو شخص جماعتِ اسلامی میں داخل نہیں ہے،وہ مسلمان نہیں ہے؟اگر میری یا جماعتِ اسلامی کے کارکنوں کی طرف سے کبھی ایسی کوئی بات کہی یا لکھی گئی ہے تو اس کا حوالہ کیوں نہیں پیش کیا جاتا؟حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے پیدا ہونے میں ہماری کسی غلطی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ہمارے مخالفین کے’’حسن نیت‘‘ کی آفریدہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کو کسی طرح ہمارے خلاف بھڑکایا جائے، اور بھڑکانے کے لیے اس سے زیادہ کار گر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں سے کہا جائے کہ یہ لوگ تمھیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ یہ نسخہ اس سے پہلے بھی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلاف بارہا استعمال کیا جاچکا ہے،اور آج یہ ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔
لیکن میں صرف اس منفی جواب ہی پر اکتفا نہ کروں گا۔ میں آج اس سوال کا کوئی نیا جواب بھی نہ دوں گا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اب اس الزام سے بچنے کے لیے اس کا انکار کیا جارہا ہے۔میں اس وقت کی تصریحات پیش کرتا ہوں جب کہ جماعتِ اسلامی کی تشکیل کی گئی تھی۔اگر آپ کے پاس ’’ترجمان القرآن‘‘ کے پرانے فائل موجود ہوں تو براہِ کرم ربیع الاول ۱۹۶۰ھ (مئی۱۹۴۱ء) کا پرچہ نکال کر دیکھیے۔ اس کے اشارات میں یہ عبارت آ پ کو ملے گی:
جماعتِ اسلامی کے نام سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس جماعت سے باہر جولوگ ہیں ان کو ہم غیر مسلم سمجھتے ہیں ۔ہم نے یہ نام جس وجہ سے اختیارکیا ہے، وہ اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ظاہر ہے کہ جس جماعت کے مسلک میں نہ اسلام سے کم کوئی چیز ہو نہ اس سے زائد، جس کا عقیدہ وہی ہو جو اسلام کا ہے، نصب العین وہی ہو جو اسلام نے پیش کیا ہے، نظام جماعت وہی ہو جس کا نقشہ کتاب وسنت میں ملتا ہے،اور کام کا ڈھنگ وہی ہو جو انبیا ؑنے سکھایا ہے، اس کے لیے آخر ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کے سوا اور کیا نام ہوسکتا ہے۔مگر ہم ہرگز یہ فرض نہیں کرتے،اور ایسا فرض کرلینے کا ہم کو حق نہیں ہے کہ ایمان بس اسی جماعت کے اندر منحصر ہے اور اس کے باہر جو لوگ ہیں وہ مومن نہیں ہیں ۔بلکہ اگر کوئی اس جماعت کی مخالفت کرے تب بھی مجرد اس کی مخالفت کی بنا پر ہم اسے غیر مومن نہیں کہہ سکتے…بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ہم سے زیادہ صاحب ایمان ہو اور وہ نیک نیتی کے ساتھ کسی غلط فہمی کی بنا پر ہماری مخالفت کرے۔اپنی حد تک ہم انتہائی کوشش کریں گے کہ اپنے مسلک اور طریق کار کو عین اسلام کے مطابق رکھیں تاکہ کسی شخص صالح ومومن کے لیے ہم سے علیحدہ رہنے کی کوئی وجہ نہ ہو اور اس طرح تمام اہل ایمان آخر کار ایک ہی نظام میں منسلک ہوسکیں ۔ لیکن اپنی اس آرزو کو ایک حاصل شدہ واقعہ فرض کرکے ہم ہرگز فتنے میں نہ پڑیں گے۔ہم کو بہرحال مسلمانوں میں ایک فرقہ بننے سے بچنا ہے اور اس غلو سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں جو ہمیں خیر کے بجاے شر کا خادم دے۔
اس کے بعد جب ہندستان میں پہلی مرتبہ مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں عام مسلمانوں کی تکفیر کررہا ہوں اور بعض حضرات نے ازراہِ عنایت مجھے مُکَّفِرِ ملتکا خطاب بھی عنایت فرمادیا تو میں نے اپنے ایک مضمون میں پھراپنی پوزیشن واضح کی۔ یہ مضمون’’رفع شبہات‘‘ کے عنوان سے ستمبر،اکتوبر،نومبر۱۹۴۱ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا تھا۔اس کی یہ عبارت قابل ملاحظہ ہے:
میرا اصل مدعا اقامت دین کی جدوجہدکے لیے صالح آدمی چھانٹنا ہے نہ کہ مسلمانوں کے کفر وایمان کی بحث چھیڑنا۔ مسلمانوں کی موجودہ ایمانی و اخلاقی حالت پر جو تنقیدیں میں نے کی ہیں ، ان سے بھی میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ دعوت الی اﷲ کے مقصد عظیم کا اعتبار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اس وقت کیا کیا کوتاہیاں پائی جاتی ہیں اور یہ کہ اس کارخیر کے لیے مسلمانوں کے اس مجموعے میں سے کس قسم کے لوگ مناسب اور مطلوب ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دستور میں شہادتین کو شرط رکنیت قرار دینے کی غرض بھی صرف یہ ہے کہ جو لوگ اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں ،ان کے متعلق یہ اطمینان کرلیا جائے کہ وہ صالح العقیدہ ہیں او رجاہلیت کی ان آمیزشوں کو لیے ہوئے نہیں آرہے ہیں جو بدقسمتی سے مسلمانوں کے اندر گھس آئی ہیں ، نیز یہ کہ دعوت الی اﷲ کی خدمت شروع کرنے سے پہلے وہ ایک مرتبہ پھر اﷲ کے ساتھ اپنے عہد ومیثاق کو استوار کرلیں اور نو مسلمانہ جوش کے ساتھ کام کے لیے آگے بڑھیں ۔میرے اس مقصد کو لوگوں نے نہیں سمجھا اور بعض ہوشیار لوگوں نے قصداً بھی اس کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائیں ۔ اس وجہ سے جن بزرگوں کو میری تحریرات کے تفصیلی مطالعے کاموقع نہیں ملا ہے اور جن تک میری بات دوسروں کی تحریفات کے واسطے سے پہنچی ہے، انھیں یہ غلط فہمی ہوگئی کہ میں ’’مسلمانوں کوایمان اور یقین سے خالی‘‘ قرار دے رہا ہوں اور ان کو ’’دین کے دائرے سے باہر دھکیل کر پھر اندر آنے کی دعوت‘‘ دیتا ہوں اور یہ کہ’’جس توپ خانے کا دہانہ کفر کی طرف کھولاگیا تھا،اب اسے اہل ایمان کی طرف‘‘ کھول رہا ہوں ۔ اﷲ شاہد ہے کہ میں اِ ن باتوں سے بری ہوں ۔
یہ تصریحات اب سے دس برس پہلے کی گئی تھیں اور اس کے بعد سے آج تک بارہا ان کو دہرایا جاچکا ہے،مگر داد دیجیے ان لوگوں کی ذہانت اور جسارت کی جو ان کے باوجود آج تک برابر اپنا یہ الزام دہرائے چلے جارہے ہیں کہ یہ شخص مسلمانوں کو نامسلمان قرار دیتا ہے،اور جماعتِ اسلامی اپنے دائرے سے باہر کسی کے ایمان واسلام کی قائل ہی نہیں ہے۔اﷲ کے بندے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم جو ہر مسجد میں ہر امام کے پیچھے عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے ہیں ، کیا ان سب کو کافر سمجھ کر ہی ایسا کرتے ہیں ؟