اشیا کے اجزاے ترکیبی میں حرام چیز کا ملنا

امریکن سوپ فیکٹری،رحیم یار خان کے انگریز منیجر نے صابن کے اجزاے ترکیبی پر بحث کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یورپ سے آنے والے خوش بو دار سوپ میں چربی کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ہر قسم کے جانور کی چربی کو استعمال کیا جاتا ہے خواہ وہ خنزیر ہو یا گائے۔اس انکشاف جدید کے بعد میں نے لکس، حمام وغیرہ کا استعمال ترک کردیاہے۔اس مسئلے میں آپ کی راے کیا ہے؟کیا آپ انگریزی خوش بودار سوپ استعمال کرتے ہیں ؟
جواب

یہ امر تحقیق طلب ہے کہ حرام چیزیں کیمیاوی ترکیبات میں شامل ہوجانے کے بعد بھی آیا اپنی اصل کو باقی رکھتی ہیں یا نہیں ؟اور اگر یہ اصل باقی نہیں رہتی بلکہ کیمیاوی ترکیب ان کی ماہیت تبدیل کرکے ان کو اور ان کے ساتھ ملنے والی دوسری اشیا کو بھی ایک نئی چیز بنا دیتی ہے،تو کیا وہ نئی چیز بھی اس بِنا پر حرام ہوگی کہ اُ س کے اجزاے ترکیبی میں ایک حرام شے شامل تھی؟ یہ ایک دقیق مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے مجرد ترکیب، اختلاط،آمیزش اور امتزاج کی نوعیت اور کیمیاوی ترکیب وتحول کی نوعیت کافرق اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔نیز یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ کیمیاوی ترکیب کی انفرادی ماہیتوں میں جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ،وہ ان تغیرات سے اشبہ ہیں جو نباتات او رحیوانات کے جِرم میں اجزاے غذا کے داخل ہونے کے بعد واقع ہوا کرتے ہیں ۔
مسئلے کے اِ س پہلو کو ذہن نشین کرلینے کے بعد پہلے ماہرین فن سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ آیاصابن میں مجرد ترکیب واقع ہوتی ہے یا کیمیاوی ترکیب؟یعنی آیا اس کے اجزا کا اختلاط محض آمیزش کی نوعیت رکھتا ہے جس میں ایک ایک جز اپنی اصل باقی رکھتا ہو،یا یہ سب مل کر ایک کیمیاوی عمل کی بدولت اپنی ابتدائی ماہیت کھو دیتے ہیں اور ایک نئی چیز پیدا کردیتے ہیں ؟
اس کے بعد علما کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جو ترکیبات مؤخر الذکر نوعیت کی ہوں ،ان میں حرام اجزا کی شمولیت کا کیا حکم ہے؟
اس تحقیق کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے بہت شدید ہوگئی ہے کہ ہمارا ملک زیادہ تر خام اشیا پیدا کرکے بیچ دیتا ہے اور ہم ان کے بدلے میں ایسے ملکوں سے اپنی ضروریات کی بے شمار مصنوعات خرید رہے ہیں جہاں کے لوگ حلال وحرام کی تمیز سے قطعاًنا آشنا ہیں ۔اب یہ بات وقتاًفوقتاً ہمارے علم میں آتی رہتی ہے کہ فلاں چیز جو باہر سے درآمد ہوتی ہے،اُس میں فلاں حرام شے استعمال کی جاتی ہے،اور اس طرح کی خبریں سن سن کر آئے دن ہماری زندگی تلخ ہوتی رہتی ہے کہ کہیں ہم گناہ میں تو مبتلا نہیں ہورہے ہیں ۔اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پہلے اُصولی طور پر مختلف اقسام کے مرکبات کی شرعی حیثیت مشخص کی جائے اور پھر ہر ایک کا حکم واضح طور پر بتا دیا جائے۔
میں اس معاملے میں خود مذبذب ہوں اور قطعی راے پر نہیں پہنچ سکا ہوں ۔ البتہ اس پریشانی میں سب کے ساتھ شریک ہوں کہ وقتاًفوقتاً کسی نہ کسی چیز کے متعلق یہ اطلاع کانوں میں پڑجاتی ہے کہ اس میں کوئی حرام چیز شامل ہے۔اب آپ نے صابن کے متعلق خبر سنا کر ایک اور شک کا اضافہ کردیا۔ (ترجمان القرآن ، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)