اصحاب ِقبور سے دُعا کی درخواست

کسی بزرگ کی قبر پر جاکر اس طرح کہنا کہ’’اے ولی اﷲ!آپ ہمارے لیے اﷲ سے دعا کریں ‘‘کیا درست ہے؟
جواب

کسی بزرگ سے اپنے حق میں دُعاے خیر کی درخواست کرنا بجاے خود کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔آدمی خود بھی اﷲ سے دعا مانگ سکتا ہے،اور دوسروں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے لیے دعا کرو۔ لیکن وفات یافتہ بزرگوں کی قبروں پر جاکر یہ درخواست پیش کرنا معاملے کی نوعیت کو بالکل ہی بدل دیتا ہے۔قبر پر یہ بات کہنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ اپنے دل میں ،یا چپکے چپکے ایسا کہیں ۔اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ان بزرگوں کی سماعت کی شان وہی کچھ سمجھ رہے ہیں جو اﷲ کی ہے کہ:
وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْہَرُوْا بِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (الملک:۱۳)
’’تم اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے،وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے۔‘‘
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ زور زور سے ان ولی اﷲ کو پکار کر یہ بات کہیں ۔اس صورت میں اعتقاد کی خرابی تو لازم نہ آئے گی مگر یہ اندھیرے میں تیر چلا نا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پکار رہے ہوں اور وہ نہ سن رہے ہوں ۔کیوں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کا سماع تو ممکن ہو، مگر ان کی روح اس وقت وہاں تشریف نہ رکھتی ہو،اور آپ خواہ مخواہ خالی مکان پر آوازیں دے رہے ہوں ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روح تشریف فرما تو ہو مگر وہ اپنے ربّ کی طرف مشغول ہوں ،اور آپ اپنی غرض کے لیے چیخ چیخ کر ان کو اُلٹی اذیت دیں ۔دنیا میں کسی نیک آدمی سے دعا کرانے کے لیے آپ جاتے ہیں تو مہذب طریقے سے پہلے ملاقات ہوتی ہے پھر آپ عرض مدعا کرتے ہیں ۔یہ تو نہیں کرتے کہ مکان کے باہر کھڑے ہوکر بس چیخنا شروع کردیا۔کچھ پتا نہیں کہ اندر ہیں یا نہیں ہیں ۔ ہیں تو آرام میں ہیں یا کسی کام میں مشغول ہیں ،یا آپ کی بات سننے کے لیے خالی بیٹھے ہیں ۔
اب غور کیجیے کہ وفات یافتہ بزرگو ں کے معاملے میں جب ہمارے لیے ان کے احوال معلوم کرنے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے تو ان کے مکانوں پر جاکر اندھادھند چیخ پکار شروع کردینا آخر کس معقول آدمی کا کام ہوسکتا ہے۔دعا کروانے کا یہ طریقہ اگر قرآن وحدیث میں سکھایا گیا ہوتا،یا اس کا کوئی ثبوت موجود ہوتا کہ صحابہؓ کے عہد میں یہ رائج تھا، تب تو بات صاف تھی ۔بڑے اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا تھا۔لیکن جب وہاں اس کا کوئی پتہ نشان نہیں ملتا تو آخر ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی ایک صورت توصریحاً صفات الٰہی کے تصور سے ٹکراتی ہے ،اور دوسری صورت علانیہ غیر معقول نظر آتی ہے۔ ( ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر ۱۹۵۷ء)