اصحاب ِکہف کی مدتِ نوم

اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاًمذکور ہے،آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیرقدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔
جواب

اصحاب کہف کے زمانۂ نوم کی مدت کے بارے میں میرے بیان پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے، اس کا جواب آپ کو تفہیم القرآن ہی میں مل جاتااگر آپ پورے قصے کی تفسیر اس میں دیکھ لیتے۔ یہ تو آپ نے بڑی سخت بات کہہ دی کہ قرآن صریحاً مدت کی تعیین کررہا ہے اور پھر بھی تم نے تاریخ پریقین کیا اور قرآن کی تصریح رد کردی۔کیا آپ ایسے شخص کو مسلمان مان سکتے ہیں جو قرآن کو چھوڑ کر تاریخ پر ایمان لاے؟میں تو ایک لمحے کے لیے بھی اسے کافر قرار دینے میں تأمل نہ کروں گا۔ اب ذرا آپ سورۂ الکہف کی اس آیت پر غور فرمایئے کہ وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًاo قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ({ FR 2244 }) (الکھف:۲۵-۲۶)کیا یہ واقعی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مدت نوم کی تعیین ہے؟اگر ایسا ہوتا تو قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کا فقرہ بے معنی ہوجاتا۔ (ترجمان القرآن ،دسمبر۱۹۵۵ء)