اعمال کےصلے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی نیت

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صرف ان اُعمال کے صلے کا وعدہ کیا گیا ہے جن کا تمام مقصد اور تمام محرک صرف اُس کی خوش نودی ورضا کا حصول ہو۔ مثلاًاگر کسی کی غربت وبے کسی پر رحم کھا کر ہم اس کی مدد کریں اور مدد کرنے میں اس کو ممنون کرنے یا اس سے آئندہ کوئی کام نکالنے یا کچھ لینے کا خیال نہ ہو بلکہ صرف اﷲ کا واسطہ منظور ہو تو کیا یہ بھی شرک ہے؟کیوں کہ اس کے ساتھ سلوک کرنے کا ابتدائی محرک ہماری رقت قلب ہے۔جس طرح آپ کے نزدیک خدمت ملت میں اگر کہیں قومیت کا رنگ پیدا ہوجائے تو عبادت نہیں رہتی۔
جواب

آپ کا] ... [ سوال واضح نہیں ہے۔اگر کسی کی غربت وبے کسی پر رحم کھا کر آپ صرف اﷲ واسطے اس کی مدد کریں تو یہ فعل ظاہر ہے کہ خالص رضاے الٰہی کے حصول کے لیے ہوگا۔اس کے شرک ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟اور اس سے میرے قول کی نفی کیسے لازم آتی ہے؟اس کی ابتدائی محرک آپ کی رِقت قلب ہی سہی، مگر رقت قلب کی تحریک پر جو کام آپ نے کیا،وہ تو اﷲ کا پسندیدہ کام ہی کیا،اور اس غرض کے لیے کیا کہ اﷲ اسے پسند فرمائے۔اسی طرح اگر آپ اپنی قوم کی کوئی خدمت اُس طریقے سے کریں جو اﷲ کا پسندیدہ طریقہ ہو،اور اس غرض کے لیے کریں کہ اﷲ اس خدمت سے خوش ہو،تو یہ عین عبادت ہے۔میں جس چیز کا مخالف ہوں وہ تو یہ ہے کہ قوم کی خاطر وہ کام کیے جائیں جو اﷲ کو پسند نہیں ہیں ،اور ایسے طریقے سے کیے جائیں جو اﷲ کی بتائی ہوئی راہ کے خلاف ہیں ۔ (ترجمان القرآن، جنوری،فروری ۱۹۵۱ء)