اقامتِ دین کے لیے اُمید اوراعتماد

رسول اﷲ ﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ،ان کے بارے میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافت راشدہ کانظام جلد درہم برہم ہوگیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے، جن کا اسلامی تحریک کے ارتقا پر ناخوش گوار اثر پڑا۔ نبی کریم ﷺ کے اتنے قریبی زمانے میں اور عہد نبوی میں تربیت یافتہ صحابہ کی موجودگی میں اگر مسلم سوسائٹی میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے تو آج ہم لوگ جو ان سلف صالحین کی بلندیوں کے تصور سے بھی عاجز ہیں ، کس چیز پر فخر کرسکتے ہیں اور کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کرسکیں گے؟
جواب

آپ کے سوالات({ FR 1066 }) جتنے آسان اور مختصر معلوم ہوتے ہیں ، ان کا جواب اتنے اختصار اور آسانی سے دینا محال ہے۔ ان مسائل پر مفصل بحث سردست مشکل ہے، صرف مجمل جوابی اشارات عرض ہیں ۔ اﷲ نے چاہا تو انھی سے آپ کی تشفی ہوجائے گی۔
اپنی قومی تاریخ میں ہمیں محض دھبوں ہی کی تلاش نہیں کرنی چاہیے اور صرف ان ہی کے تصور پر شرما کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ ہماری تاریخ بہت سے روشن نشانات کی بھی حامل ہے۔ ہمیں ان پر بھی فخر کرنا چاہیے اور انھیں نگاہ میں رکھ کر امید اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ روشن نشانات کو دیکھنے سے گریز کرنا اور صرف دھبوں کا خیال کرکے دل مسوس کر بیٹھ جانا بہت بے جا قسم کی قنوطیت ہے۔ (ترجمان القرآن ،دسمبر ۱۹۵۳ء)