امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینے کا طریقہ

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں ایک عرصے سے پریشان ہوں ۔ نہی عن المنکر کے متعلق جب میں احکام کی شدت کو دیکھتی ہوں اور دوسری طرف دنیا میں منکر کا جو حال ہے اور جتنی کثرت ہے ،اس کا خیال کرتی ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان احکام پر کیسے عمل کیا جائے۔اگر برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کے بجاے زبان سے منع کرنا مطلوب ہو (کیوں کہ ہاتھ سے نہ سہی،مگر زبان سے کہنے کی قدرت سواے شاذصورتوں کے ہوتی ہی ہے) تو پھر تو انسان ہر وقت اسی کام میں رہے، کیوں کہ منکر سے تو کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہوتی۔ لیکن بڑی رکاوٹ اس کام میں یہ ہوتی ہے کہ جس کو منع کیا جائے،وہ کبھی اپنی خیر خواہی پر محمول نہیں کرتا بلکہ اُلٹا اسے ناگوار ہوتا ہے۔میرا تجربہ تو یہی ہے کہ چاہے کسی کو کتنے ہی نرم الفاظ میں اور خیر خواہانہ انداز میں منع کیا جائے،مگر وہ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا، بلکہ کوئی تو بہت بے توجہی برتے گا، کوئی کچھ اُلٹا ہی جوا ب دے گا اور اگر کسی نے بہت لحاظ کیا تو سن کر چپ ہورہا ۔مگر ناگوار اسے بھی گزرتا ہے اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔ مثلاًہم راہ چلتے میں کسی عورت کو بے پردہ دیکھتے ہیں تو اگر اس کو سرراہ ہی منع نہ کیا جائے تو دوسرا کون سا موقع ہمیں ایک ناواقف عورت کو سمجھانے کا مل سکے گا۔کیا راستے میں روک کر سمجھانا آپ کے نزدیک مناسب ہے؟اسی طرح جس عورت کا چال چلن درست نہ ہو،اس کو کیسے نصیحت کی جائے؟ چاہے کوئی عورت کتنی ہی رسواے زمانہ ہو لیکن نصیحت کرو تو برا مانے گی۔ اگر درس یااجتماع میں بلایا جائے تو کبھی نہیں آئے گی۔پھر ان کے معاملے میں اس فریضے کوا دا کرنے کی صورت کیا ہو؟آخر میں اس بارے میں بھی آگاہ فرمائیں کہ عورت کے لیے کیا مردوں پر تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے؟
جواب

امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا حکم عام ہے مگر اس پر عمل کرنے میں آدمی کو حکمت ملحوظ رکھنی چاہیے۔ موقع ومحل کو دیکھے بغیر ہر جگہ ایک ہی لگے بندھے طریقے سے اس کام کو کرنے سے بعض اوقات اُلٹا اثر ہوتا ہے۔میرے لیے اس کا کوئی ایسا طریقہ بتا دینا مشکل ہے جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل کرسکیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ خود آہستہ آہستہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اپنے اندر اتنی حکمت پیدا کریں کہ ہر موقع اور ہر آدمی اور ہر حالت کو سمجھ کر امربالمعروف یا نہی عن المنکر کی خدمت انجام دینے کا ایک مناسب طریقہ اختیا رکرسکیں ۔ اس کام میں اوّل اوّل آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی، اور بعض مواقع پر غلطی آپ کی نہ ہوگی مگر دوسرے شخص کی طرف سے جواب نامناسب ہوگا۔لیکن یہی تجربات آپ کو صحیح طریقہ سکھاتے چلے جائیں گے، بشرطیکہ آپ بددل ہوکر اس کام کو چھوڑ نہ دیں ،اور ہر تجربے کے بعد غور کریں کہ اس میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کیا ہے، اور دوسرے نے اگر ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے تو اسے راہ راست پر لانے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
یہ بھی خیال رکھیے کہ یہ کام بڑا صبر چاہتا ہے۔جہاں آپ برائی دیکھیں اور محسوس ہوکہ اس وقت اس پر ٹوکنا مناسب نہیں ہے،تو ٹال جایے اور دوسرا کوئی مناسب موقع اس کے لیے تلاش کرتی رہیے۔ اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ ایسی کوئی برائی ہو کہ اس کو ٹوکنا آپ کے لیے مشکل ہو تو وہاں سے ہٹ جایے،اور اگر کوئی صحبت یا تقریب اس قسم کی ہو تو اس سے الگ رہیے۔ ایسے مواقع پر لوگ بالعموم خود آپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھیں گے۔اس وقت آپ کو یہ موقع مل جائے گا کہ بڑی نرمی کے ساتھ وجہ بیان کردیں اور یہ کہہ دیں کہ آپ لوگوں کو روکنا تو میرے بس میں نہیں ہے مگر احکام خدا و رسول کی خلاف ورزی میں شریک ہونے کی جرأت بھی میرے اندر نہیں ہے۔
آپ نے چند متعین اُمور کے متعلق بھی سوال کیا ہے۔ان کا جواب یہ ہے کہ راہ چلتی عورتیں اگر بے پردہ ہوں تو ان کو وہیں روک کر سمجھانا مناسب نہیں ہے۔ یہ ایک عام مصیبت ہے جس کا انفرادی حل اب ممکن نہیں رہا ہے۔اس کو تو اب اجتماعی اصلاح کی تدابیر ہی سے درست کیا جاسکتا ہے۔آپ کا کام یہ ہے کہ جن عورتوں سے آپ کی واقفیت ہے اور وہ بے پردگی کے مرض میں مبتلا ہیں ،ان تک احکام خدا و رسول پہنچانے کی کوشش کریں ۔
جس عورت کا چلن خراب ہو،اسے سمجھانے کا ایسا طریقہ اختیار کیجیے جس سے اس کو یہ شبہہ لاحق نہ ہو کہ آپ اسے بدچلن قرار دے رہی ہیں ۔ نیز اسے بدچلنی کے خلاف وعظ سنانے کے بجاے پہلے اس کے دل میں ایمان اور خدا کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔اجتماع میں وہ نہ آئے تو کوئی تقریب ایسی پیدا کریں جس میں وہ شریک ہو اوراس وقت قیامت اور آخرت اور جنت اور دوزخ کی باتیں کریں ، اور اﷲ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا احساس دلائیں ۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم کا خطاب عورتوں اور مردوں سب کے لیے یکساں ہے، مگر عورتوں کو اپنے دائرے میں ہی یہ فرض انجام دینا چاہیے۔ان کے مخاطب وہ مرد ضرور ہوسکتے ہیں جو ان کے رشتہ دار ہوں اور جن سے ملنا جلنا، بات چیت کرنا ان کے لیے ممکن ہو۔ عام مردوں کو نصیحت کرنا ان کا فرض نہیں ہے اِلاّ یہ کہ وہ شائع ہونے والی تحریروں کی شکل میں یہ خدمت انجام دیں ۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء)