انقلاب کا راستہ،زبانی تبلیغ یا عملی اقدام

تحریک اسلامی سے مجھے بہت دل چسپی ہے مگر چند روز سے ایک اہم اعتراض دماغ میں چکر لگا رہا ہے،جسے آپ کے سامنے رکھ کر راہ نمائی چاہتا ہوں کہ اگر مسلمان موجودہ طاغوتی نظام سے بالکل علیحدگی اختیار کرلیں تو ان کی حیثیت ہندستان میں غلام یا اچھوت کی سی رہ جائے گی۔پس کیایہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ جیسے اعلیٰ دماغ حضرات مسلمانوں کو اس نظام سے فائدہ اُٹھانے کی گنجائش دے کر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہیں ، تا آں کہ پوری مسلمان قوم کی ذہنیت ایک ہی طرزِ فکر کی حامل ہوجائے اور پھر موقع آنے پر وہ یک دم نظامِ حق کے لیے اُٹھ کھڑی ہو۔ اگر تمام مسلمان آپ کی تحریک اسلامی کے ساتھ ہوگئے ہوتے تب تو طاغوتی نظام میں جذب ہوئے بغیر کام یابی کا امکان تھا،مگر اب جب کہ مسلمانوں کی اکثریت تحریک اسلامی کے نام سے بھی واقف نہیں اور علما جن کا فرض ہی احیاے دین کی جدوجہد ہے ،اس کو ناقابل عمل بتاتے ہیں ،نظامِ باطل سے کٹ کر کام یابی حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔پھر کیا آپ اس پر متفق نہیں ہوں گے کہ ابھی آپ صرف تبلیغی کام کرتے رہیں اور جب بالعموم مسلمانوں کے ذہن تحریکِ اسلامی کو سمجھنے لگیں اس وقت عملی کا م کا آغاز کیا جائے؟
جواب

آپ کا مطلب جہاں تک آپ کے خط سے سمجھ میں آیا ہے،یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف زبانی تبلیغ تقریر و تحریر اور مضامین ورسائل کے ذریعے سے جاری رکھی جائے، اور جن اُصولوں کی تبلیغ کی جائے ان پر نہ خود عمل کیا جائے نہ دوسروں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے،پھر جب سارے مسلمانوں کے ذہن ہمارے خیالات سے متاثر ہوجائیں تب دفعتاً اُٹھ کر انقلاب پید ا کر دیا جائے۔
خیال تو بہت بے ضرر اور بے خطر ہے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تبلیغ اور انقلاب کی فطرت اس کے خلاف واقع ہوئی ہے۔ مؤثر اور نتیجہ خیز تبلیغ ہوتی ہی اس وقت ہے جب کہ تبلیغ کرنے والی پارٹی اپنے اُصولوں پر عمل کرتی ہے اور ان پر عمل کرنے والوں کی تنظیم کرتی ہے۔خالی خولی وعظ تو بہت دنوں سے اس ملک میں ہورہے ہیں ۔ان کا کیا نتیجہ ہوا؟
یہ عجیب معاملہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہم کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم لکھتے اور چھاپتے ہو، کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے، اور کچھ آپ جیسے لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ صرف لکھو اور چھاپو، مسلمانوں کو عمل کرنے کے خطرے میں کیوں ڈالتے ہو۔ہماری درخواست یہ ہے کہ ان طعنوں اور مشوروں سے پہلے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم اپنی دعوت اور طریقِ دعوت دونوں میں حضرات انبیاے کرامؑ کے پیرو ہیں ۔ اس وجہ سے جس کو ہمیں کوئی مشورہ دینا ہو یا ہم پر اعتراض کرنا ہو،وہ اپنے مشورے اور اعتراض پر حضرات انبیاؑ کے قول اور عمل کی دلیل پیش کرے۔ صرف مصلحت بازی اور خیال آرائی یا اندیشہ سازی ہماری نگاہوں میں کوئی وُقعت نہیں رکھتی ،پس بہتر ہے کہ لوگ ہمیں اس سے معاف رکھیں ۔ (ترجمان القرآن ، مارچ ۱۹۴۶ء)