انگریزی میں نماز

میں اکیس سال کا ایک انگریز مسلمان ہوں ۔ ایک سال قبل جب کہ میں سومالی لینڈ({ FR 2009 }) میں ایک فوجی افسر تھا،اس وقت اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوا۔ میرا سوال اسلام کی سرکاری زبان سے متعلق ہے۔ اس سے پیشتر جب میں مسیحیت کا پیرو تھا، اس وقت میں اپنی عبادت اور کتاب مقدس اپنی مادری زبان(انگریزی) میں پڑھا کرتا۔ اب جب کہ میں دائرۂ اسلام میں آچکا ہوں ، تو مجھے نماز اور قرآن کریم دونوں عربی زبان میں پڑھنے پڑتے ہیں ۔ اس تبدیلی سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں عربی کی پابندی کی وجہ سے، خواہ اس میں کتنا ہی حسن کیوں نہ ہو، بہت بڑی روحانیت سے محروم کردیا گیا ہوں ۔ میں آپ کا انتہائی سپاس گزار ہوں گا اگر آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں نماز انگریزی میں ادا کرسکتا ہوں ؟ اس مسئلے پر شرح صدر حاصل کرنے کے لیے براہِ کرم مجھے ان قدیم ائمۂ اسلام کے نام بتائیں جنھوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کیا ہو۔ اگرچہ یہ میر ی ذاتی اُلجھن ہے لیکن میں یہ بات قدرے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ چیز خصوصاً یورپ میں بہت سے غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے راستے میں حائل ہے۔ لندن میں میرے بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں اس معاملے میں جناب کی طرف رجوع کروں ۔ مجھے امید ہے کہ جناب کی راہ نمائی میرے لیے انتہائی قیمتی ہوگی۔
جواب

مجھے آپ کے قبول اسلام کی خبر سن کر قلبی مسرت ہوئی۔میں اﷲ تعا لیٰ کا شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے ہمارے ایک بھائی کو نور ِ ہدایت سے نوازا ہے، اور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو دین حق میں مزید ہدایت اور استقامت عطا فرمائے۔ آپ کو دین کے احکام اور مسائل سمجھنے میں مدد دینے کی خدمت جس حد تک بھی انجام دے سکتا ہوں ،اس کے لیے ہر وقت بخوشی حاضر ہوں ۔آپ جب چاہیں میری خدمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
نماز کی زبان کے بارے میں آپ نے جو سوال کیا ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ نماز صرف عربی زبان ہی میں اداکی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ نماز کا سب سے اہم جز قرآن کی تلاوت ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا ہے ،اور اس کا ترجمہ خواہ کتنا ہی صحیح ہو،بہرحال قرآن نہیں ہے،نہ اس پر کلام اﷲ کا اطلا ق ہوسکتا ہے۔دوسری جو چیزیں نماز میں پڑھی جاتی ہیں ،وہ سب نبیﷺ نے مقرر کی ہیں او رجن الفاظ میں آں حضرت ﷺ نے ان کی تعلیم دی ہے ،انھی میں ان کو پڑھنا چاہیے۔ دوسری زبان کے الفاظ اوّل تو ان کے صحیح معنی ادا نہیں کرتے،اور کسی حد تک وہ ادا کریں بھی تو بہرحال وہ پیغمبر ﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ کے قائم مقام نہیں ہوسکتے۔یہی وجہ ہے کہ شروع سے آج تک کے تمام فقہاے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ نماز عربی زبان ہی میں ادا کی جانی چاہیے۔ نہ قرآن کے اصل الفاظ کی جگہ ان کا ترجمہ پڑھا جاسکتا ہے اور نہ نبیؐ کے بتائے ہوئے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔
البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ جو غیر عرب انسان نیا نیا مسلمان ہو اور فوراً ہی عربی زبان میں قرآن اور دوسرے اذکارِصلاۃ پڑھنے کے قابل نہ ہو سکے وہ کیا کرے؟ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ (امام ابوحنیفہؒ کے دو فاضل شاگردوں ) کی راے یہ ہے کہ ایسا شخص اپنی زبان میں ترجمہ پڑھ سکتا ہے، مگر اسے جلدی سے جلدی کوشش کرنی چاہیے کہ عربی زبان میں نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ اما م ابو حنیفہؒپہلے اس بات کے قائل تھے کہ عربی زبان کے تلفظ کی قدرت رکھنے والے شخص کے لیے بھی غیر عربی میں نماز پڑھنا جائز ہے ،مگر بعد میں انھوں نے اپنی راے سے رجوع کرلیا اور وہی راے اختیار کی جو ان کے دو جلیل القدر شاگردوں ،امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے ظاہر کی ہے۔لیکن امام شافعی ؒکی راے یہ ہے کہ نماز کسی حال میں بھی عربی کے سوا دوسری زبان میں ادا نہیں کی جاسکتی ۔جو شخص عربی تلفظ پر قادر نہ ہو ،وہ نماز میں سبحان اﷲ اور الحمد ﷲ جیسے مختصر الفاظ پڑھتا رہے اور اس امر کی کوشش کرے کہ جلدی سے جلدی عربی میں نماز ادا کرنے کی قدرت اسے حاصل ہوجائے۔({ FR 2010 })
ایک ایسی زبان میں نما زپڑھنا جس کو آدمی نہ سمجھتا ہو اور جن کے صرف الفاظ ہی وہ زبان سے ادا کررہا ہو، بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے اور سرسری نگاہ میں آدمی اس کو کچھ غیر فطری سا محسوس کرتا ہے۔ لیکن آپ ذرا گہری نگاہ سے دیکھیں تو اس کی عظیم مصلحتیں آپ کے سامنے واضح ہوجائیں گی۔
ایک مذہب کے اپنی اصلی شکل او رروح کے ساتھ برقرار رہنے کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ اس کی تعلیم اپنے اصل الفاظ میں محفوظ رہے۔ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کبھی اصل کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ۔نہ اصل کی پوری روح اور اس کی کامل معنویت دوسری زبان میں منتقل کی جاسکتی ہے۔ترجمہ ہر شخص اپنی فہم کے مطابق کرے گا اور دو مترجموں کے ترجمے کبھی متفق نہ ہوسکیں گے۔ یہ معاملہ تو انسانی تصنیفوں کے ترجمے میں ہم آئے دن دیکھتے ہیں ۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کے کلام اورپیغمبرانہ الفاظ کو پوری روح اور معنویت کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کیا جاسکے اور یہ کہا جا سکے کہ یہ ترجمہ اصل کا قائم مقام ہے۔
دنیا کے مذاہب کو بگاڑنے میں ایک بہت بڑا دخل اس چیز کا ہے کہ ان کی ساری بنیادی کتابیں اپنی اصل زبان میں محفوظ نہیں رہیں اور ان کے پیروئوں کا سارا انحصار مختلف زبانوں کے مختلف ترجموں پر ہوگیا جن میں باہم کوئی موافقت نہیں ہے اور جن کے اندر آئے دن ترمیمیں ہوتی رہتی ہیں ۔مسلمانوں کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مذہب کا مدار جس کتاب پر اور جس پیغمبر کی ہدایات پر ہے وہ کتاب بھی اپنی اصل زبان میں موجود ہے اور اس پیغمبر کی تعلیمات بھی اسی زبان میں محفوظ ہیں جس میں وہ دی گئی تھیں ۔ اب یہ ہماری طرف سے بڑی نادانی ہوگی کہ ہم اس نعمت کی قدر نہ کریں اور اپنے مذہب کا مدار بھی ترجموں ہی پر رکھنے کا دروازہ کھول دیں ۔ سب سے بڑی طاقت جو ہمیں قرآن اور تعلیم پیغمبر سے وابستہ رکھتی ہے،یہی نماز ہے جسے ہم روزانہ پانچ وقت پڑھتے ہیں ۔اس کی زبان بدل دینے کے بعد مشکل ہی سے اپنے دین کے اصلی سرچشموں سے ہمارا رشتہ قائم رہ سکے گا۔
ایک مذہب کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ چیز بھی نہایت ضروری ہے کہ اس کی عبادات اپنی اصلی شکل پر قائم رہیں اور لوگ ان کے اندر اپنے حسب منشا ردّ وبدل کرلینے میں آزاد نہ ہوں ۔ مذہب کا سب سے اہم حصہ اس کی عبادات ہوتی ہیں ۔ انھی کے اتباع اور احترام اور التزام سے بقیہ تعلیمات دین کو قوت نافذہ حاصل ہوتی ہے۔ اور خود ان عبادات کو جو چیز پیرو ان مذہب کے لیے مقدس ومحترم اور واجب الا تباع بناتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ ان کا ہر جز اور ہر لفظ اس اقتدار اعلیٰ کا مقرر کردہ ہے جس پر وہ ایمان لاے ہیں ۔یہ یقین ایسی صورت میں ختم ہوجائے گا جب کہ عبادت کی شکلیں اور ان کے الفاظ مقرر کرنے میں لوگوں کی اپنی راے اور مرضی کا دخل شروع ہوجائے، اور اس کے متزلزل ہوتے ہی پورے دین کے مسخ ہونے اور اس کے احکام کی پیروی سے لوگوں کے آزاد ہونے کا راستہ کھل جائے گا۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ تمام دنیا میں ہر قوم اور ہر ملک کے لیے اور ہر زبان بولنے والوں کے لیے اذان اور نماز کی ایک ہی زبان ہونا وہ عظیم الشان قوت رابطہ ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملت اور عالم گیر برادری بناتی ہے۔آپ خواہ اس کرۂ زمین کے کسی گوشے میں چلے جائیں ، اذان کی آواز سنتے ہی محسوس کرلیں گے کہ یہاں آپ کی ملت کا کوئی شخص یا گروہ ہے اور وہ نماز کے لیے بلارہا ہے۔ نماز کے لیے آپ جہاں بھی جائیں گے وہی ایک جانی پہچانی آواز سنیں گے خواہ آپ لندن میں ہوں یا نائیجیریا میں یا انڈونیشیا میں ۔ اپنے ساتھی مسلمانوں کی زبان کا ایک لفظ بھی چاہے آپ نہ جانتے ہوں ،مگر نماز میں نہ آپ ان کے لیے اجنبی ہوں گے نہ وہ آپ کے لیے۔ اس کے بجاے اگر نمازہر ایک اپنی مادری زبان میں پڑھنے لگے اور اذان بھی ہر جگہ مقامی زبان ہی میں دی جانے لگے تو یہ عالم گیر برادری بے شمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ براعظم ہندو پاکستان میں تین سو سے زائد زبانیں ہیں ۔ صرف اسی سرزمین میں ایک مسلم ملت کے اتنے ہی ٹکڑے ہوجائیں گے جتنی یہاں زبانیں ہیں ، اور ایک مسلما ن اپنے علاقے سے باہر نکل کر نہ اذان کو پہچان سکے گا ،نہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھ سکے گا۔یہی کیفیت دنیا کے دوسرے خطوں میں پیش آئے گی۔ اور پھر حج کے موقع پر تو شاید منارۂ بابل کی سی حالت رونما ہو۔یہ دراصل مسلمانوں میں اسی(nationalization of the church) کی ابتداہوگی جس میں مسیحی دنیا مبتلا ہوکر نبرد آزما قومیّتوں میں بٹ گئی ہے۔ کیا آپ کو اس نعمت کا احساس نہیں ہے کہ قوم پرستی،نسل پرستی،رنگ پرستی اور زبان پرستی سے پارہ پارہ ہوجانے والی انسانیت کے لیے اسلام نے عالم گیر وحدت کا یہ کتنا بڑا ذریعہ پیدا کیا ہے جو دنیا بھر کے لیے عربی اذان،عربی نماز، عربی کلمہ اور عربی زبان کی چند معروف اور مشترک مذہبی اصطلاحات کی شکل میں آپ کو نظر آرہا ہے؟اسی’’ سرکاری زبان‘‘ کی بدولت ہی تو مسلما ن ہر جگہ مسلمان کو پہچانتا اور اس کے ساتھ اس طرح مل جاتا ہے جیسے ازل سے ان دونوں کی روحوں میں کوئی قریبی رشتہ ہو۔
جہاں تک نماز کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت کا تعلق ہے،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مگر یہ ضرورت اس بڑے نقصان کو،جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ،انگیز کیے بغیر بھی پوری کی جاسکتی ہے۔نماز کے لیے قرآن کی چند سورتیں کافی ہیں ، اور قرآن کے سوا باقی تمام اذکار جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں ،صرف چند فقروں پر مشتمل ہیں ۔ان کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ترجمہ بآسانی ذہن نشین کیا جاسکتا ہے، اور اس طرح وہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے جسے آپ بجا طورپر’’روحانی قدر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن : اکتوبر ،نومبر،۱۹۵۷ء)