ادارہ اہل سنت وجماعت، حیدرآبادد کن کے ترجمان ماہ نامہ ’الحق‘ جلد نمبر ۱۵ شمارہ ۱۷۳ تا ۱۷۶ میں عنوان ’ربانی ہدایت‘ کے تحت اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ (یوسف۴۰) کے فقرۂ قرآنی کی تشریح کی گئی ہے۔ تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ اس مضمون میں لکھا گیاہے
’’لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ عصر حاضر کے مفکرین اسلام حق تعالیٰ کے اس ارشاداِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے اور یہ کہ اقتدارِاعلیٰ اللہ ہی کےلیے ہے۔ بالخصوص جب یہ بات ان حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، جو اپنی دینی بصیرت کے لحاظ سے عوام وخواص کے نزدیک ایک مقام رکھتے ہیں اور ایک حدتک دینی بصیرت کے حامل ہیں تو اور بھی دکھ ہوتاہے۔‘‘
اس عبارت میں اگرچہ یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ عہد حاضر کے وہ مفکرین اسلام کون ہیں جو یہ مفہوم بیان کرتے ہیں، مگر ہراس شخص کاذہن جس نے جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھا ہے، اس عبارت کو پڑھتے ہی جماعت اسلامی کی طرف جاتا ہے۔ مولانا صفوۃ الرحمٰن صابر مدیر ’الحق ‘ کی تشریح پڑھ کر یہ الجھن پیداہوتی ہے کہ آخرکون سی بات صحیح ہے؟ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کے علاوہ ان کے مضمون میں کئی باتیں اورہیں جو جماعت اسلامی کے لٹریچر اوراس کے مسلک کے خلاف ہیں۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر رسالہ ’زندگی‘ میں اس کا مدلل اور تشفی بخش جواب دیں تاکہ الجھن دورہو۔
جواب
ماہ نامہ ’الحق ‘ یہاں ماہ نامہ ’زندگی‘ کے تبادلے میں آتاتھا۔ لیکن ادھر بہت دنوں سے وہ ہمارے پاس تبادلے میں نہیں آرہاہے۔ آپ کے توجہ دلانے پر راقم الحروف نے وہ شمارہ منگواکر اس مضمون کو پڑھا۔اس مضمون میں ایک جگہ یہ عبارت نظر آئی
’’غورفرمائیے اور ٹھنڈے دل سے غورفرمائیے کہ ہمارے ان مفکرین کی مرعوب ذہنیت کہاں کہاں اورکیا کیا گل کھلارہی ہے۔ دراصل ان حضرات نے دیکھا کہ مغرب میں ہرانقلاب سیاسی ہوکہ تمدنی ہوکہ معاشرتی، حکومت واقتدار کے بل بوتے پرہواہے۔ لہٰذا انھوں نے اسلامی انقلاب کے لیے حکومت واقتدار کے حصول کو ضروری فرض کرلیا اور اس مفروضے کو مدلل کرنے کے لیے ان حضرات کو اسی طرح کی بے محل تاویلات کا سہارا لینا پڑا۔ اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کے لیے ہے یا یہ کہ قانون سازی کا اختیار اللہ ہی کے لیےہے، یہ اپنی جگہ الگ بحث ہے۔ آیت زیر تشریح نہ اس کا محل ہے اور نہ اس مفہوم کی متحمل۔ ‘‘
اس عبارت کامطلب یہ ہوا کہ جن مفکرین کی طرف مضمون نگار اشارہ فرمارہے ہیں ان کے پاس اس عقیدے کے لیے کہ اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور انسانی زندگی کے لیے قانون سازی کا مستحق صرف وہی ہے، کوئی دلیل اس فقرے کے سواموجود نہیں ہے اور انھیں اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے اس فقرے کی بے محل تاویلات کا سہارا لینا پڑتا ہے، تو میں سب سے پہلے یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی میں ایسے مفکرین کاوجود نہیں ہے۔ اس جماعت کے مفکرین کے پاس عقیدہ بالا کے لیے کتاب وسنت کے بیسیوں دلائل موجود ہیں۔ بلکہ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے، سورۂ یوسف کی متعلقہ آیتوں کا ترجمہ وتفسیر کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے کسی ذمہ دار شخص نے یہ ترجمہ نہیں کیا ہے کہ ’’اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کے لیے ہے، قانون سازی کا اختیار اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ اس لیے آپ کو مطمئن رہنا چاہیے کہ فاضل مضمون نگارکی اس عبارت کی مصداق جماعت اسلامی نہیں ہے۔
مدیر’الحق ‘ کے مضمون میں اصل چیز وہ تشریح ہی ہے جو انھوں نے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِکے فقرےکی،کی ہے۔اور باتیں یا تواسی تشریح کا نتیجہ ہیں یا محض ضمنی ہیں۔ اس لیے اس تشریح پرہی اصلاً تھوڑی تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔ محترم مدیر ’الحق‘ نے قرآن کے زیرِ بحث فقرے کی جو تشریح کی ہے اس کا خلاصہ اس فقرے کے ترجمے میں درج کردیا ہے۔ان کی عبارت یہ ہے
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ’’فرماں روائی صرف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘(یعنی اللہ کی کارسازی وکارفرمائی میں کوئی فرد خلق شریک ودخیل نہیں ہے)۔
قوسین میں جو عبارت انھوں نے اضافہ کی ہے اسی کو آگے تشریح کے عنوان سے کئی صفحے میں پھیلا کر لکھا ہے۔ اس لمبی تشریح کا حاصل یہ ہے کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ میں ’حکم ‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکومت ہے۔ اس لیے اس فقرے کامطلب صرف یہ ہے کہ اس کائنات کے انتظام وانصرام اوراس کی ’کارسازی وکارفرمائی‘ میں کوئی مخلوق شریک ودخیل نہیں ہے۔ بلکہ خدا ہی اپنی کائنات کا تنہا کار ساز وکارفرماہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کے لیے ہے اور قانون سازی کا اختیار اللہ ہی کے لیے ہے تو آیت زیر تشریح نہ اس کا محل ہے اور نہ اس مفہوم کی متحمل۔
اس تشریح کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ’فرماں روائی‘اور ’اقتدار‘ میں لفظی فرق کے سوا معنوی فرق کیا ہے؟ یعنی ’فرماں روائی صرف اللہ کے لیے ہے‘ اور ’اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کے لیے ہے۔‘ ان دونوں جملوں میں لفظوں کے سوا معنی ومفہوم کا کیا فرق ہے؟
ظاہر ہے کہ اس کائنات میں جب فرماں روائی صرف اللہ کے لیے ہے تو اقتدارِ اعلیٰ بھی یقیناً صرف اسی کے لیے ہوگا اور جو اس کائنات کاتنہا فرماں روا ہے، یقیناً وہی تنہا مقتدر اعلیٰ بھی ہوگا۔جملے دوہیں، لیکن حقیقت ایک ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ معلوم نہیں مضمون نگار نے دونوں میں کیا فرق سمجھا ہے جس کی بناپر وہ زیر بحث فقرے کا ترجمہ ’فرماں روائی صرف اللہ کے لیے ہے‘ کرتے ہیں اور پھراس فقرے میں اقتدارِاعلیٰ کے مفہوم کی اس شدت سے نفی کررہے ہیں کہ وہ اس مفہوم کا متحمل ہی نہیں ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ جو اس کائنات کا تنہا فرماں روا ہوگا اسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون سازی کا بھی حق ہوگا۔ قانون سازی فرماں روائی کا لازمی اقتضا ہے۔فرماں روائی ملزوم ہے اور قانون سازی اس کا لازم غیرمنفک، جب دونوں لازم ملزوم ہیں تو پھر آخرکس قاعدے سے مفہوم لازم کی اس شدت سے نفی درست ہوگی کہ آیت اس مفہوم کی متحمل ہی نہ رہے۔ یہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو عقل عام اور فہم عام سے اونچی ہو۔ ایک دیہاتی بھی یہ جانتا ہے کہ ملک کا جو بادشاہ ہوگا وہاں قانون بھی اسی کا چلنا چاہیے۔
اس لحاظ سے کہنا چاہیے کہ فاضل مضمون نگار نے کئی صفحے میں جو تشریح لکھی ہے وہ خود ان کے اپنے ترجمے کے خلاف ہے اور دونوں میں توافق کی نہیں تضاد کی نسبت ہے۔ عقل ودرایت کے لحاظ سے اتنا ہی جواب کافی ہوسکتا ہے۔ لیکن آئیے اب اس پہلو پرذرا تفصیل سے گفتگو کرلیں کہ یہاں قانون سازی کے مفہوم کی نفی کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں ؟
اگر فقرۂ زیر بحث میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریعی حکومت بھی مراد لی جائے اور اس فقرے کو ’کارسازی‘ کے ساتھ ’قانون سازی‘ کے مفہوم کا بھی متحمل مانا جائے تو یہ بات غلط کیوں ہوگی؟ غلط ہونے کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں
(۱) عربی لغت اور استعمالات قرآن کے لحاظ سے لفظ حکم کو امرونہی یا قانون کے معنی میں لینا غلط ہو۔
(۲) صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تشریعی حکومت یعنی تنزیل شریعت اور قانون سازی کی تخصیص صحیح نہ ہو، یا اس مفہوم کو ماننے میں کوئی عقلی یا شرعی قباحت لازم آتی ہو۔
(۳) سیاق وسباق میں اس مفہوم کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
(۴) آخردرجے میں یہ کہ آج تک کسی مستند مفسر قرآن نے اس فقرے میں امرونہی یا قانون سازی کا مفہوم بیان نہ کیا ہو۔
یہ چاروجوہ ہیں جن کی بناپر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کافقرہ قانون سازی کے مفہوم کامتحمل نہیں ہے۔آگے ہم ان چاروں وجوہ کا جائزہ لیں گے۔
لفظ حکم کی لغوی حقیقت
عربی لغات کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ ’حکم ‘ کا لفظ اصلاً دومعنوں میں استعمال ہوتاہے۔ کسی شے کافیصلہ کرنا۔کسی کواصلاح کے لیے کسی چیز سے روکنا۔ لسان العرب میں ہے
الحکم القضاء وجمعہ احکام قال الازھری وروینا عن ابراھیم النخعی انہ قال احکم الیتیم کما تحکم ولد ک ای امنعہ من الفساد واصلحہ کما تصلح ولدک وکماتمنعہ من الفساد
’’حکم کے معنی ہیں فیصلہ اور اس کی جمع احکام ہے۔ ازہری نے کہاہم نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا یتیم بچے کو روکو جس طرح تم اپنے بچے کو روکتے ہو۔یعنی اسے شروفساد سے منع کرو اور اس کی اصلاح کرو، جس طرح تم اپنی اولاد کی اصلاح کرتے ہو اور اسے فساد سے روکتے ہو۔‘‘
امام راغب نے ’حکم ‘کا اصل معنی منع ہی کو قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں حکم اصلہ منع منعا لا صلاح ومنہ سمیت اللجام حکمہ الدابۃ ’’حکم کی اصل اصلاح کے لیے روکنا ہے۔ اسی سے لگام کو جانور کا حکمہ کہتے ہیں۔ ‘‘حاکم کو حاکم بھی انھیں دونوں معنوں کے لحاظ سے کہتے ہیں۔ لسان میں ہے الحاکم منفذالحکم والجمع حکام وھوالحکم ’’حاکم اس کو کہتے ہیں جو فیصلے کو نافذ کرے۔ اس کی جمع حکام ہے اور حکم بھی حاکم کے معنی میں آتاہے۔‘‘ دوسرے معنی کے لحاظ سے کہا ہے من ھذا قیل للحاکم بین الناس حاکم لانہ یمنع الظالم عن الظلم ’’اسی سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے کو حاکم کہتے ہیں کیوں کہ وہ ظالم کو ظلم سے روکتا ہے۔‘‘ انھیں دومعنوں کے لحاظ سے یہ لفظ فرماں روائی، اقتدار، علم وفقہ،امرونہی اور قانون کے لیے بھی استعمال کیاجاتاہے۔
اس مختصر لغوی تشریح سے یہ بات معلوم ہوئی کہ لفظ حکم کا ترجمہ فرماں روائی بھی اس کا اصلی اور حقیقی معنی نہیں ہے، بلکہ مجازی اور حقیقت لغوی کا لازمی معنی ہے۔ اس لفظ کے حقیقی معنی کے لحاظ سے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کاترجمہ یہ ہوگا ’’فیصلے کااختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔‘‘ یا فیصلہ کن طاقت صرف اللہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے احکم الحاکمین کی صفت بھی اسی معنی کے لحاظ سے لائی گئی ہے اور شرعی وقانونی احکام کو بھی احکام اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ مختلف معاملات میں دراصل شارع کے فیصلے ہوتے ہیں۔ معلوم ہواکہ جس طرح ’’فرماں روائی وکارسازی صرف اللہ کے لیے ہے‘‘ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کا لغوی اعتبار سے صحیح ترجمہ ہے، اسی طرح اگرکوئی شخص یہ ترجمہ کرے کہ ’’فرماں روائی اور قانون سازی اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ تولغت کے اعتبار سے یہ ترجمہ بھی غلط نہ ہوگا۔ اس لیے کہ خدائے احکم الحاکمین تکوینی وتشریعی ہردولحاظ سے حاکم حقیقی ہے اور فیصلہ کن طاقت صرف اسی کے پاس ہے۔وہی اپنی کائنات کا جائز بادشاہ بھی ہے اور وہی اپنی کائنات کا جائز شارع بھی ہے۔
لفظ حکم قرآن میں
قرآن حکیم میں یہ لفظ زیادہ ترقضا یعنی فیصلہ کے معنی میں استعمال ہواہے اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے استعمال ہواہے ہرجگہ بلا استثنا قضاء تکوینی کے ساتھ وہاں قضاء تشریعی بھی مراد ہے۔ لیکن میں چند ایسی مثالیں پیش کرتا ہوں جہاں بلا اشتباہ وہ صرف قضاء شرعی یعنی شرعی قانون کے معنی میں استعمال ہواہے۔
(۱) وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰىۃُ فِيْہَا حُكْمُ اللہِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۴۳ۧ (المائدہ۴۳)
’’اورکیسے وہ تمہیں اپنا حکم بناتے ہیں حالاں کہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر وہ اس سے منہ موڑتے ہیں اور یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں حکم اللہ کا لفظ اس قانون قتل یا قانون رجم کے لیے استعمال ہواہے جو توریت میں موجود تھا۔ یہاں حکم اللہ سے اللہ کا حکم تکوینی مراد نہیں ہے۔
(۲) وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا۰ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللہِ۰ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۱۰ (الممتحنہ۱۰)
’’اور کافرعورتوں کی ناموس پرقبضہ نہ رکھو اور تم نے جو کچھ خرچ کیا ہے وہ تم مانگ لو اور انھوں نے جو کچھ خرچ کیا ہے وہ مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہاں ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللہِ کااشارہ اس قانون ہی کی طرف ہے جو اوپر سے بیان ہوتاچلاآرہاہے۔ یہاں بھی حکم اللہ سے اس کی تکوینی فرماں روائی مراد نہیں ہوسکتی۔
(۳) اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۵۰ۧ
(المائدہ۵۰)
’’کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اوران لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں اللہ سے بہتر حکم کس کا ہے؟‘‘
اس آیت میں دونوں جگہ حکم کا لفظ انسانی زندگی کے احکام وقوانین ہی کے معنی میں آیا ہے۔یہاں بھی تکوینی حکومت مراد نہیں ہے۔
چنگیزخاں کا مجموعہ احکام
یہاں ضمنی طورپر اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ کی آیت کے تحت مفسرابن کثیر کی چونکا دینے والی عبارت پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
ینکرتعالٰی علی من خرج عن حکم اللہ المحکم المشتمل علی کل خیرالناھی عن کل شروعدل الی ماسواہ من الاٰراء والا ھواء والاصطلاحات التی وضعھا الرجال بلا مستند من شریعۃ اللہ کما کان اھل الجاھلیۃ یحکمون بہ من الضلالات والجھالات مما یضعونھا باٰ راء ھم واھواء ھم وکما یحکم بہ التتار من السیاسات الملکیۃ الماخوذۃ عن ملکھم جنکیزخاں الذی وضع لہ الیاسق وھو عبارۃ عن کتاب مجموع من احکام قد اقتبسھا عن شرائع شتی من الیھودیۃ والنصرانیۃ والملۃ الاسلامیۃ وغیرھا وفیھا کثیرمن الاحکام اخذھا من مجرد نظرہ وھواہ فصارت فی بنیہ شرعا متبعایقد مونھا علی الحکم بکتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمن فعل ذلک فھوکافر یجب قتالہ حتی یرجع الی حکم اللہ ورسولہ فلایحکم سواہ فی قلیل ولا کثیر
(تفسیرابن کثیر، طبع مصر،۱۳۵۶،۲؍۶۷)
’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان لوگوں پر انکار کررہاہے جو اللہ کے اس محکم فیصلہ وقانون سے الگ ہوجائیں جو ہر خیر پر مشتمل اور ہر شرسے روکنے والا ہے۔اور اس کے بدلے میں لوگوں کی ایسی خواہشات، آرا اوراصطلاحات اختیار کرلیں جن کی اللہ کی شریعت میں کوئی سند اور دلیل موجود نہ ہو، جس طرح اہلِ جاہلیت اپنی خواہشات اور آرا سے گھڑی ہوئی گم راہیوں اورجہالتوں کے مطابق زندگی کے معاملات کے فیصلے کیا کرتے تھے، یا جس طرح تاتاری ان ملکی سیاستوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو انھوں نے اپنے بادشاہ چنگیزخاں سے اخذ کیے ہیں۔ چنگیزخان کی سیاسات ملکی عبارت ہے اس مجموعہ احکام سے جو یاسق نے اس کے لیے مرتب کیاتھا۔ اس میں یہودی، نصرانی، اسلامی اوردوسری شریعتوں سے احکام لیے گئے ہیں اوراس میں بہت سے احکام ایسے ہیں جو محض مرتب مجموعہ کے غوروفکر اوراس کی خواہشات کا نتیجہ ہیں۔ یہ مجموعہ احکام اب اس کے خاندان کے مسلمان سلاطین وحکام کے نزدیک وہ اصل شریعت ہے جس کا وہ اتباع کرتے ہیں۔ اس مجموعے کے احکام کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے احکام پرمقدم رکھتے ہیں اور جو ایسا کرے وہ کافر ہے، اس سے اس وقت تک مقابلہ واجب ہے جب تک وہ اللہ اوراس کے رسول کے حکم کی طرف پلٹ نہ آئے اور چھوٹے بڑے معاملہ میں انھیں کے مطابق فیصلے نہ کرنے لگے۔‘‘
مفسرابن کثیر کی یہ قیمتی عبارت اس لائق ہے کہ مسلمان حکام اور علمائے امت اس پر باربار غور کریں۔ اصل موضوع بحث کے سلسلے میں لفظ حکم کی پابندی کے ساتھ چند مثالیں پیش کی گئی ہیں، ورنہ اس مصدر کے صیغوں کی مثالیں اتنی ہیں کہ اس مختصر جواب میں ان کا سمانا بھی مشکل ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن میں حکم کا لفظ امرونہی، شریعت اور قانون کے لیے بھی بکثرت استعمال ہواہے۔ اس لیے اگر فقرہ زیر بحث میں قانون سازی کے مفہوم کو داخل مانا جائے تو اس پہلو سے کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ مدیر ’الحق ‘ نے اپنے دعوے کی تائید میں سورۂ کہف کے ایک ٹکڑے وَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۲۶ کاحوالہ دیاہے۔حیرت ہے کہ ان کو صرف وہ آیت نظر آئی اور ہماری پیش کردہ آیتیں ان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئیں۔ اس کے علاوہ سورۂ کہف کے اس ٹکڑے میں کیا حکم کا لفظ صرف حکومت تکوینی کے لیے استعمال ہواہے؟ راقم الحروف کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں بھی تکوینی کے ساتھ حکم تشریعی موجود ہے اس سے خارج نہیں ہے۔ اس ٹکڑے کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں
وَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۲۶ اَیْ اَنَّہٗ تَعَالٰی ھُوَ الَّذِیْ لَہٗ الْخَلْقَ وَالْاَمْرَ الَّذِیْ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَلَیْسَ لَہٗ وَزِیْرٌوَلَا نَصِیْرٌ وَلَا شَرِیْکٌ وَلَا مُشِیْرٌ تَعَالٰی وَتَقَدَّسَ (۳؍۸۰)
’’یعنی اللہ تعالیٰ ہی وہ ہے کہ اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے جس کے فیصلے کا کوئی پیچھا کرنے والا نہیں، جس کا نہ کوئی وزیر ہے، نہ مددگار، نہ شریک ہے اور نہ مشیر، وہ بلند وبالا اورپاک ومنزہ ہے۔‘‘
معلوم ہواکہ یہاں بھی ابن کثیر نے حکم کو تکوینی امور کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے بلکہ اس میں اللہ کے امر کو بھی داخل مانا ہے۔ اس پوری بحث سے معلوم ہواکہ عربی لغت اور قرآن کے استعمالات کی روسے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ میں قانون سازی کے مفہوم کو داخل ماننا بالکل صحیح ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت
اب اس سوال پرغورکیجیے کہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تشریعی حکومت یعنی اعطائے شریعت اور قانون سازی کی تخصیص صحیح ہے یا نہیں ؟
تمام امت مسلمہ کا اس عقیدے پر اجماع ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ تکوینی طورپر تنہا اس کائنات کافرماں روا ہے۔ کوئی مخلوق اس میں دخیل وشریک نہیں۔ اسی طرح وہ تشریعی طورپر بھی تنہا اس کائنات کا شارع ہے۔ امرونہی، تحلیل وتحریم اور انسانی زندگی کے لیے قانون دینا صرف اسی کا حق ہے، کوئی مخلوق اس میں دخیل وشریک نہیں۔ ہر وہ شریعت اور ہر وہ قانون باطل ہے جو شریعت الٰہی اور قانون الٰہی کے علی الرغم بنایاگیا ہو۔ جس طرح یہ عقیدہ شرک ہے کہ دنیا کے انتظام وانصرام اور تکوینی امور میں کسی مخلوق کو دخیل سمجھاجائے، اسی طرح یہ عقیدہ بھی شرک ہی ہے کہ امرونہی،تحلیل وتحریم اور انسانی زندگی کے لیے قانون سازی میں کسی مخلوق کو دخیل سمجھاجائے۔ اور یہ دوسرا شرک پہلے شرک سے قباحت وشناعت میں ذرہ برابر کم نہیں ہے۔ انبیائے کرام اللہ کا دین اور اس کی شریعت لے کر اس لیے آتے رہے کہ ان دونوں شرکوں کا استیصال کرکے اللہ کے دین اور اس کی شریعت کو ہرباطل دین وشریعت پرغالب کریں۔ یہ وہ عقیدہ ہے، جس پر دوچار دلیلیں، نہیں بلکہ پورا قرآن اس کی دلیل ہے۔سورہ ٔ مائدہ میں ان لوگوں کو جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں، کافر، ظالم اور فاسق کہاگیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ کے لیے تشریعی حکومت کی تخصیص نہ صرف یہ کہ صحیح ہے، بلکہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے۔ لہٰذا اس پہلو سے بھی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ میں قانون سازی کے مفہوم کو داخل ماننا بالکل درست ہے اور کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ اسی سے یہ بھی واضح ہواکہ اس سے کوئی عقلی اور شرعی قباحت لازم نہیں آتی، بلکہ اگر اس مفہوم کو کارسازی کے مفہوم سے خارج تسلیم کیاجائے تو سخت قسم کی عقلی وشرعی قباحت لازم آئے گی۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیتوں میں اپنی الوہیت وربوبیت اور تکوینی طورپر کائنات کی بلاشرکت غیرے مالکیت وحاکمیت کو اپنی تشریعی حاکمیت اورا پنے صاحب امرونہی ہونے کی دلیل بنایا ہے، کیوں کہ تشریعی حاکمیت دراصل تکوینی حاکمیت کا لازمی اقتضا ہے۔ اس لیے جہاں بھی قرآن میں تکوینی حاکمیت کا ذکر ہے وہاں اس کی تشریعی حاکمیت آپ سے آپ موجود ہے۔ جس طرح لازم ملزوم کے ساتھ آپ سے آپ موجود ہوتا ہے۔ اب اگر اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ اور لَا یُشْرِکْ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا جیسی آیتوں سے کوئی شخص تشریع اور قانون سازی کے مفہوم کی نفی کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لازم کو ملزوم سے الگ کررہاہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اوراس کے انتظام وانصرام پربلاشرکت غیرے خدا کے حاکم ومتصرف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہی صاحب امرونہی، شارع اور انسانی زندگی کے لیے قانون ساز بھی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس بات کا کوئی صاحب علم مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سیاق وسباق کی دلیل
کیا اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کے سیاق وسباق میں قانون سازی کے مفہوم کی گنجائش نہیں ہے؟اگر کسی شخص نے اوپر کی تفصیلات کو غور سے پڑھا ہے تو اس کے لیے اس سوال کا جواب معلوم کرنا مشکل نہیں ہے۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سیاق وسباق میں اس مفہوم کی پوری گنجائش موجود ہے۔کیوں کہ اس فقرے سے آگے اور پیچھے کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو اس مفہوم کی نفی کرتی ہو۔ بلکہ پورے قرآن میں کہیں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو اس مفہوم کے خلاف ہو۔ قاعدے کے لحاظ سے قرآن کے سیاق وسباق کو کسی مفہوم کے خلاف دلیل بنانے کی دوشرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں اس مفہوم کو ماننے سے کوئی معنوی خرابی لازم آتی ہو،دوسری یہ کہ وہ مفہوم پورے قرآن کے مضامین وحقائق سے ہم آہنگ نہ ہو۔
جب فقرہ زیر بحث میں امرونہی یا قانون سازی کا مفہوم ماننے سے نہ کوئی معنوی خرابی لازم آتی ہے اور نہ وہ پورے قرآن کے مضامین سے بے میل ہے تو پھر آخر سیاق وسباق کو کس طرح اس کے خلاف دلیل بنایا جاسکتا ہے۔ فاضل مدیر ’الحق‘ نے اپنے دعوے پرسیاق وسباق کی دلیل کو اپنے جانتے بڑے زور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے نہ سیاق وسباق پراچھی طرح غور کیا ہے اور نہ اس قاعدے کی پروا کی ہے۔
یہ تو اس لحاظ سے گفتگو تھی کہ سیاق وسباق اس مفہوم کے خلاف نہیں ہے۔ اب میں اس پہلو پرگفتگو کروں گا کہ یہاں سیاق وسباق اس مفہوم کا متقاضی بھی ہے۔ یہ فقرہ جس آیت کا ایک ٹکڑا ہے اس سے پہلے کی آیت یہ ہے
اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف۳۹)
’’کیا متفرق ومتعدد رب بہترہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔‘‘
عام طورسے مفسرین ’ارباب‘ کی تفسیر اصنام سے کرتےہیں۔ لیکن یہاں ارباب کے لفظ کو بتوں کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اس میں وقت کے وہ سلاطین وامرا اور وہ رہبر ورہ نما داخل ہیں، جن کے گھڑے ہوئے قوانین کے شکنجے میں اس وقت کی مخلوق کسی ہوئی تھی، اور جن کی حیثیت رب حقیقی کے مقابلے میں ارباب باطل کی تھی۔جیل کے جن دوساتھیوں کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام تقریر کررہے تھے وہ بھی اسی قسم کی خود ساختہ ربوبیت کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے۔ آگے کی آیتوں میں اُذْکُرْنِیْ عِنْدَرَبِّکَ کا ٹکڑا اس پردلیل ہے کہ ’اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ‘ میں حضرت یوسف علیہ السلام نے وقت کے بادشاہ کو داخل ماناتھا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کے بعد کے ٹکڑے یہ ہیں
اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۴۰
( یوسف۴۰)
’’اس نے حکم دیا ہے کہ خود اس کے سواتم کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے، مگر اکثر لوگ نادان ہیں۔ ‘‘
ان ٹکڑوں نے تو یہ بات بالکل صاف کردی کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ میں اللہ تعالیٰ کا حکم تشریعی بھی مراد ہے۔ ان میں تین لفظ آئے ہیں۔ امر،عبادت، الدین القیم۔ امر کا صیغہ بتارہاہے کہ اللہ صرف مدبرکائنات ہی نہیں ہے،بلکہ تمہارے لیے آمر(حکم دینے والا) بھی ہے۔ عبادت اور الدین القیم کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اسی نے تمہاری زندگی کے لیے ’الدین ‘بنایا ہے اور اس نے حکم دیا ہے کہ اسی الدین پراپنی زندگی بسر کرو۔ یہاں عبادت ہی کو ’الدین القیم ‘ کہاگیا ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس سے مراد صرف پرستش نہیں ہے، بلکہ پوری زندگی میں خدا کی اطاعت مراد ہے۔ اور غور سے دیکھیے تو پرستش بھی اس کی اطاعت ہی کا ایک مظہر ہے، کیوں کہ ہم اس کی ہدایات کے خلاف اس کی پرستش بھی نہیں کرسکتے اور اگر کریں تو وہ باطل ہوگی۔اس سے معلوم ہواکہ اطاعت عبادت کا ایک ایسا لازمی جزوہے جو کبھی اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اب آپ خود غور کیجیے کہ فقرہ زیر بحث کاسیاق وسباق حکم تشریعی کے مفہوم کا متقاضی ہے یا اس کے خلاف ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بڑی گہری دینی بصیرت کے مدعی حضرات کس ذہن سے قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں۔
چند قدیم مفسرین کی تشریح
اوپر جودلائل گزرچکے ہیں، ان کے بعد ضرورت نہ تھی کہ کسی جدید وقدیم مفسر کی تفسیر کا حوالہ دیاجائے۔ لیکن مستند مفسرین کے اقوال بہرحال اپنا ایک وزن رکھتے ہیں اور ان کی تائید سے مزید تشفی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں فقرہ زیر بحث میں چند قدیم مفسرین کے اقوال بھی نقل کیے جارہے ہیں۔ امام رازیؒ نے آیات زیر بحث کی تفسیر میں سوال وجواب کے انداز میں جوبات لکھی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے
’’جان لو کہ بتوں کو پوجنے والی ایک جماعت نے کہا کہ ہم لوگ ان اصنام کو عالم کا الٰہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ انھوں نے دنیا کو پیدا کیا ہے، بلکہ انھیں الٰہ کے اسم سے موسوم کرنے،ان کی پوجا کرنے اور ان کی تعظیم کرنے کی وجہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اس جماعت کو جواب دیتے ہوئے اللہ فرماتا ہے کہ ان اصنام کو اللہ کے اسم سے موسوم کرنے کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہے اور ان اسماء کے لیے اس نے نہ کوئی حجت نازل کی ہے نہ برہان۔ نہ کوئی دلیل نازل کی ہے نہ سند۔غیراللہ کا نہ کوئی فیصلہ ایسا ہے جسے قبول کرنا واجب ہواور نہ کوئی امر ایسا ہے جس کا التزام ضروری ہو، بلکہ فیصلہ کرنا،حکم دینا اور مکلف گرداننا صرف اللہ کا حق ہے۔‘‘
اس عبارت میں خط کشیدہ جملے اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کی تفسیر ہیں۔ مفسربغوی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کے تحت لکھتے ہیں
’’ماالقضاء والامروالنھی الا اللہ‘‘ (فیصلہ اور امرونہی صرف اللہ کے لیے ہے۔)
خازن لکھتے ہیں
’’ان الحکم الا اللہ یعنی ان الحکم والقضاء والامر والنھی للہ تعالی لا شریک لہ فی ذالک‘‘
یعنی حکم، فیصلہ اور امرونہی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
ان قدیم مفسرین کی تفسیروں سے معلوم ہواکہ وہ اِنِ الْحُکْمُ اِلّا لِلہِ میں خدا کے حکم تشریعی اور امرونہی کو داخل مانتے تھے۔ اس لیے یہ عہد حاضر کے مفکرین کی ایچ نہیں ہے، بلکہ عہد قدیم کے مفکرین بھی ایسا کرچکے ہیں۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کو اللہ کی تکوینی حکومت کے ساتھ خاص کرنا نہ عقلاً صحیح ہے اور نہ شرعاً درست۔ بلکہ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کا ثبوت بھی موجود ہے اور کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں کہ قوانین خداوندی کے خلاف قوانین بنائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا عمل
کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام کے بارے میں مدیر ’الحق‘ نے وہی بات لکھی ہے جو کچھ عرصہ پہلے کسی خان بہادر صاحب نے لکھی تھی۔ اس کا مفصل جواب جماعت اسلامی کے لٹریچر میں موجود ہے۔ اس لیے میں یہاں تفصیلی بحث نہیں کروں گا۔ اس کے لیے تفہیمات حصہ دوم کے متعلقہ مضامین پڑھنے چاہییں۔ یہاں اتنا اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مدیر ’الحق‘ نے شرک اور انبیائے کرام کی بعثت پرجو کچھ لکھا ہے وہ خود ان کی نظر ثانی کا محتاج ہے۔ وہ عہد حاضر کے مفکرین کی مخالفت میں اہل سنت وجماعت کے مسلمہ عقائد پربھی ضرب لگارہے ہیں اور شاید محسوس بھی نہیں کررہے ہیں کہ حقیقت شرک کی تحدید اور انبیاء کے مقصد بعثت کی تحدید سے دین اسلام کو کیا نقصان پہنچے گا۔
لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کامفہوم
مضمون کوختم کرتے ہوئے فاضل مدیر ’الحق ‘ نے جس سلسلہ کلام میں لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے منشا کا حوالہ دیاہے، وہ بہت مبہم ہے۔ اسی طرح حکومت واقتدار کے زور سے حق کی اشاعت کا انھوں نے کیا مطلب سمجھاہے، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ اس لیے اس پر تفصیلی گفتگو غیرضروری ہے۔ اگر مطلب یہ ہے کہ حکومت واقتدار کے زور سے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبورکرنا لااکراہ فی الدین کے منشا کے خلاف ہے تو ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ عہد حاضر کے وہ کون ’مصلحین ومفکرین اسلام ‘ ہیں جو اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں اور زور وزبردستی سے کلمہ پڑھوانے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ او راگران کامطلب یہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کے لیے حصول اقتدار کی جدوجہد اور حصول اقتدار کے بعد قوانین شرعی کی بزورتنفیذلااکراہ فی الدین کے منشا کے منافی ہے تو ان کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ یہ بات کسی خان بہادرانہ ذہن کی تراوش تو ہوسکتی ہے، لیکن اسے مدیر ’الحق‘ جیسے بزرگ کی طرف نسبت دینا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے۔ (نومبر ۱۹۶۱ء ج ۲۷، ش ۵)